پارلیمنٹ احاطے سے اراکین قومی اسمبلی کی گرفتاری کے رونما ہونے والی سیاسی صورتحال کے پیش نظر قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان زبردست بیان بازی جاری رہی۔ اس دوران اسپیکرقومی اسمبلی ایاز صادق نے نے حکومت اور اپوزیشن میں میثاق پارلیمنٹ کی تجویز دی جبکہ پارلیمنٹ کی کارروائی چلانے کے لیے سولہ رکنی کمیٹی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ اسپیکرقومی اسمبلی ایازصادق نے کہا کہ بھول جائیں ماضی میں کیا ہوا، ہماری قیادت چاہے یا نہ چاہے، کیا ہم بہتری کی طرف نہیں جا سکتے؟ کیا ہم مل کر چارٹر آف پارلیمنٹ پر دستخط نہیں کر سکتے۔
قومی اسمبلی میں اجلاس کی صدارت کے دوران انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے پر تنقید ضرور کریں لیکن رکن کی عزت کابھی خیال رکھیں، اپوزیشن ارکان اورحکومتی ارکان ساتھ بیٹھ کررولزطےکرلیں۔
ایاز صادق نے کہا کہ گرفتاراراکین قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز گزشتہ روز جاری کردیے تھے، پروڈکشن آردڑز کے بعد سیکیورٹی کے کچھ ارکان کو معطل بھی کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، ہم نے اسی سیاست سے عوام کو تحفظ اور ریلیف دینا ہے، عوام نے اپنے نمائندوں کو منتخب کیا، ہم نے سیاست کو گالی بنادیا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ عوام نے اپنے نمائندوں کو منتخب کیا، ہم نے سیاست کو گالی بنادیا ہے، اسمبلی کی گیلریز میں اس وقت طلبا جو ملک کا مستقبل ہیں ، وہ بیٹھے ہیں، ہم نے اسی سیاست سے عوام کو تحفظ، ریلیف دینا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم باہر جوسیاست کریں وہ ہمارا مسئلہ ہے لیکن ایوان کے اندر ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، آئین کی بالادستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا، سیاست اہپنی جگہ لیکن ہمین ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، حکومت کاکام آگ بجھنا ہے، مزید آگ لگانا نہیں، اپوزیشن کا بھی یہ کام نہیں کہ ہر وقت گالی دے، ہمیں اپنی ذمہ داریون کو دیکھنا ہوگا،انہیں نبھاناہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت یہ سوچے گی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہےتو یہ ایک دن کی خوشی ہوگی، اگلے دن آپ بھی اسی جیل میں ہوں گے، اگر ہم آپس کی لڑائی میں لگے رہے تو ملک کیسے آگے بڑھےگا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر حکومت کا کردار یہ ہے کہ عمران خان نے ہمیں جیل میں بند کیا تھا، اب ہم نے پتھر کا جواب پتھر سے دینا ہے تو ایک دن کے لیے ہم خوش ہوں گے لیکن کل میں اور آپ اسی جیل میں ہوں گے، جب عمران خان وزیراعظم تھے تو میری ان سے صرف اتنی مخالفت تھی کہ جس سسٹم کے لیے میرے خاندان نے قربانیاں دی ہیں، وہ چلے، اسی وجہ سے بنیظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا، 18ویں ترمیم کی، این ایف سی ایوارڈ منظور کرایا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ پہلے چیف الیکشن کمشنر حکومت کی مرضی سے ہوتا تھا، ہماری ترمیم کے بعد اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت کے بعد تعینات ہوتا ہے، عبوری حکومت میں اپوزیشن، وزیر اعظم کی مشاورت اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اپوزیشن دینے سمیت یہ تمام چیزیں ہم نے کروائیں، ہم نے سمجھا اکہ اگر اس ملک نے چلنا ہے تو اس سائیڈ (حکومت) اور اس سائیڈ (اپوزیشن) دونوں کو مل کر چلنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے میرے والد، والدہ کو جیل میں ڈالا، یا آپ کے رہنما چند مہینے کے لیے جیل میں ہیں، آپ ان کا کیس ہر سطح پر لڑیں لیکن یہاں آکر عوام کی خدمت کریں، ان کے کام کریں، ہمارا بھی حکومت سے اختلاف رائے ہوتا ہے، الیکشن مہنگائی کے نکتے پر لڑا، جہاں مناسب سمھا تنقید کی، لیکن وقت آگیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ حکومت کی کارکردگی اس بنیادی معاملے پر کیا ہے، وزیر اعظم، ان کی معاشی کی کارکردگی کے بارے میں اس ایوان کو بتانا چاہوں گا کہ 8مہینے پہلے مہنگائی کی شرح کیا تھی، حکومت نے اپنے لیے بجٹ میں ہدف 12 فیصد لانے کا رکھا تھا، ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا اور مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ آپ کو اپنے قائد عمران خان کے کیسز سے اختلاف ہوگا، آپ عدالتوں سے رجوع کریں احتجاج کریں مگر ریڈ لائن کراس نہ کریں جو اس ملک کی وحدت کی لائنیں ہیں جمہوریت پر حملہ نہ کریں، جلسے میں یہ کیا کہا کہ پندرہ دن میں جیل سے عمران خان سے چھڑا لیں گے؟ آپ کو عدالت جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں، ببینظیر اور نواز شریف نے جو معاہدہ سائن کیا تھا وہ پہلی جمہوری پیشرفت تھی،2006ء سے اب تک کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ ہم نے نوے کی دہائی کی چیزوں کو دہرایا، 2014ء کے دھرنے کے دوران ساری جماعتین اس ایوان کے تقدس کیلئے متحد ہوئیں۔
انہوں ںے کہا کہ پارلیمنٹ کی عمارت پر قبضہ ہوا ہم لوگ ایوان میں پچھلے دروازے سے آتے تھے پیپلزپارٹی کے دوستوں نے اسی روح کے تحت کام کیا جیسا 2006ء میں معاہدہ ہوا تھا، نوازشریف، آصف زرداری کی ہمشیرہ، میں خود گرفتارہوا مگر کبھی ہمارے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئے مگر گرفتار پی ٹی آئی رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پی نے جو تقریر کی تو یہ واقعہ ہوا آپ جب ریاست کو چیلنج کرتے ہیں آپ لشکر لے کر جائیں گے ایک صوبے کی جیل کی طرف یہ باتیں جمہوریت کیلئے خودکشی کے مترادف ہیں، اگر عمران خان صاحب گرفتار ہیں تو ہماری لیڈرشپ بھی گرفتار رہی ہے سسٹم کو بچانے کے لیے نواز شریف بائیس یا چوبیس ماہ قید میں رہے ہماری اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ جیلوں میں قید رہی، جس دن آپ اپنے لیڈر کی نظربندی کی بات کرتے ہیں نوازشریف اور آصف زرداری کی نظربندی کو بھی یاد کریں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اکتوبر کا نام لے کر اپوزیشن کے لوگوں نے امید باندھ رکھی ہے، میں نے 34سال اس ایوان میں گزارے ہیں جو تلخی اس وقت ایوان میں دیکھی ہے وہ تاریخ میں نہیں، اسپیکر صاحب ہاؤس کو چاہیے معاملہ آپ کے سپرد کردیا جائے جس دن یہ ہاؤس ڈس رپٹ ہوا اس دن مایوسی ہوگی۔
وزیر خزانہ و نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ دیکھا جانا چاہیے جو ملک 2017ء تک بہتر معیشت کی جانب جارہا تھا، اس ملک کی معیشت 2022ء میں کیوں خراب ہوئی؟ غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔
انہوں ںے کہا کہ گرفتار اراکین اسمبلی کے معاملے پر کمیٹی بنائیں جس میں سب شامل ہوں بلاول بھٹو صاحب کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں حکومت اس معاملے میں مکمل تعاون کرے گی۔
اجلاس کے دوران محمود خان اچکزئی نے بھی بات کی اس پر خواجہ آصف نے محمود خان سے کہا کہ پارلیمنٹ پر حملے کے واقعے کی کوئی تعریف نہیں کرتا اگر پارلیمان کی بے توقیری کی گئی تو یہ ہم سب کا نقصان ہے۔ انہوں نے بیرسٹر گوہر سے کہا کہ جب کوئی شخص مطالبہ کرے تو اس کے ہاتھ صاف ہونے چاہئیں، میں واضح کرتا ہوں پارلیمنٹ میں پولیس اور نقاب پوشوں کا آنا ہماری اجتماعی بے توقیری ہے لیکن اگر پارلیمنٹ میں نقاب پوشوں کے آنے کی مذمت کی جاتی ہے تو کوئی اس شخص کی بھی تو مذمت کرے جس نے اسلام آباد میں تقریر کی وفاق اور آئین کو چیلنج کیا اور جمہوریت کو گالیاں دیں، اس کی بھی مذمت کی جائے جب چار ماہ اسی ایوان کے باہر ڈیرے ڈالے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو 10 ستمبر کو ہوا امید کرتا ہوں یہ وقوعہ دوبارہ نہیں ہوگا، 10 ستمبر کا واقعہ ایوان کے لیے بلیک ڈے ہے، ہمارے 10 ایم این ایز کو جس انداز سے اٹھایا گیا ہے یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ وہ چابیاں کس کے پاس تھیں جو دروازے کھولتے تھے، میں باہر سے گرفتا ہوا، میرے ساتھ بھی بندے چلتے رہے، لگتا ہے یہ حکومت ایک جلسے کی مار ہے، ہمیں جلسے کا روٹ دیا گیا، ہمارا راستہ پولیس نے روکا، ہمارا ارادہ چھ بجے سے جلسہ پہلے ختم کرنے کا تھا، سارے راستے بند کیے گئے تھے ہر جگہ کنٹینرز تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ میرے بارے میں کہا کہ میرے پاس پستول تھا، میں نے زندگی میں کسی کو دھکا دیا نہ کسی نے مجھے دھکا دیا، ہمیشہ جمہوریت کی خاطر مذاکرات کی بات کی، ایوان کے حق پر بڑا ڈاکا ڈالا گیا ہے، سماویہ طاہر کے خلاف پرچہ کیا گیا، آپ کے اراکین اور وزیر کے خلاف خیبرپختونخوا میں پرچے کرائیں تو کیا کرلو گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے استعفی دینے کا اعلان نہیں کیا، ہم نے تواختر مینگل سے استعفی واپس لینے کی درخواست کی، یہاں سے ہمارے اراکین کو گرفتار کیا، پی ٹی آئی پارلیمنٹ یا کسی اسمبلی سے کسی صورت استعفی دینے والے نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا پرسوں رات یہاں پرنقاب پوش کالی گاڑیوں میں آئے، پرسوں رات نقاب پوش ہمارے اراکین کواٹھا کے لے گئے، اس معاملے پر پیپلز پارٹی اور دیگرجماعتوں نے بات کی، اسپیکر چیمبر میں آئی جی اسلام آباد کو بلایا گیا۔
علی محمد خان نے مزید کہا کہ پروڈکشن آرڈرز کی گزارش کی تو اسپیکر نے زبانی آرڈرز جاری کیے، ابھی تک اسپیکر کے آرڈرز پر اسلام آباد پولیس نے عمل نہیں کیا، بات ہوئی کہ پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا، کسی نے بھاگ کر ایوان میں پناہ نہیں لی۔
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورا ایوان اسپیکر کے پیچھے کھڑا ہے، ہم نے اسد قیصرکا دور دیکھا ہے یہ ایوان اس گواہ ہے، کچھ ثبوت آئے کہ پارلیمنٹ کے اندر سے کسی کو نہیں اٹھایا، نہ سننے کا حوصلہ ہے نہ بیٹھ کر بات کرنے کا حوصلہ ہے۔
وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی بات پر پی ٹی آئی اراکین نے قومی اسمبلی اجلاس میں سخت احتجاج کیا۔
دوران اجلاس پیپلز پارٹی کے رکن خورشید شاہ اپوزیشن کے حق میں کھڑے ہوگئے اور کہا کہ جناب سپیکر آپ نے ایوان چلانا ہے، اگر پی ٹی آئی ارکان بولنے کی اجازت مانگ رہے ہیں تو انہیں بولنے دیں، پی ٹی آئی والے بھی ایوان کاحصہ ہیں انہیں بھی بولنے دیں۔