اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ فیضان کی بازیابی سے متعلق کیس میں حساس اور متعلقہ ادارے سے 7 روز میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی اور مغوی فیضان کو شامل تفتیش کرنے کی ہدایت کردی جبکہ جسٹس بابرستار نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے فیملیز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے لاپتہ فیضان کی بازیابی سے متعلق والد عثمان خان کی درخواست پر سماعت کی، جس میں درخواست گزار کے وکیل ایمان مزاری، ہادی چٹھہ اور اسٹیٹ کونسل و پولیس حکام عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فیضان کو پیر کی صبح چھوڑ دیا گیا ہے، اس پر عدالت نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ آپ نے اس سے کوئی تفتیش کی؟ کون لے گیا؟ کہاں گیا؟ جس پر پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ جی ابھی تفتیش نہیں کی،ایک وڈیو اپ لوڈ ہوئی تھی۔
عدالت نے تفتیش نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ وہ وڈیو کہاں سے اپ لوڈ ہوئی؟ جس پر پولیس حکام نے بتایا کہ اس حوالے سے آئی ٹی والوں سے رابطہ کیا ہے۔
لاپتہ شہری فیضان کی بازیابی کیلئے آئی جی اسلام آباد کو 10 ستمبر تک کی مہلت
جسٹس بابر ستار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 4 روز ہوگئے آپ تفتیش نہیں کرسکے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔ واقعے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو آئی جی اسلام آباد بھی عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئی جی صاحب کیا میرے آرڈر میں کوئی ابہام تھا، جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ کوئی ابہام نہیں تھا میں نے تمام خفیہ اداروں سے بات کی، پی ٹی اے اور آئی بی کو تحریری طور پر 2 نمبرز کے ڈیٹا کے لیے لکھا، سی ڈی آر کا تجزیہ ابھی باقی ہے انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹیل ریکارڈ ابھی پینڈنگ ہے ، آئی بی اور پی ٹی اے سے انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹیل ریکارڈ مانگا ہے۔
آئی جی اسلام آباد نے مزید کہا کہ فیضان عثمان کے واپس آنے پر 6 دفعہ ایس پی، تفتیشی اور ایس ایچ او ان کے والد کے پاس گئے، فیضان عثمان سے ہماری ملاقات نہیں کروائی گئی، ہم نے ایجنسیز سے رابطہ کیا، ٹوئٹر اکاؤنٹ کا پتہ لگانے کے لیے پی ٹی آئی سے ہماری میٹنگ ہوئی۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کس کی گاڑیاں تھیں آپ نے پتہ لگانا تھا کیا پتہ چلا؟ آپ کی صلاحت نہیں ہوتی سچ بولنے کی آپ کہہ رہے 17 سال والا سچ بولے گا، جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے ہیڈز سے میں ملا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ مغوی کی واپسی پر کیس ختم نہیں ہوجاتا، لوگوں کواٹھا کرلے جاتے فیملیز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
عدالت نے تمام حساس اداروں سے موبائل نمبرز اور گاڑیاں ٹریس کرنے سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ تمام متعلقہ ادارے 7 دنوں کے اندر اندر تفصیلی رپورٹ عدالت کو جمع کرائیں۔
عدالت عالیہ نے مغوی فیضان کو شامل تفتیش کرنے کی ہدایت کردی۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ مغوی شدید ڈراماٹائز ہے ان کو فی الحال شامل تفتیش نہ کیا جائے، جس پر عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ مغوی فیضان کو آپ عدالتی احاطے میں شامل تفتیش کرلیں، اس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ میں خود کر لوں گا۔