پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور علی امین گنڈا پور کی کئی گھنٹے کی گمشدگی پر سینئر صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ علی امین گنڈا پور کو اغوا کرلیا گیا تھا، انہیں ایک کال موصول ہوئی جس کے بعد وہ کانسٹیٹوشن ایونیو کے اوپر دفتر میں ہوگئے، انہیں موبائل فون سے محروم کردیا گیا اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے وہاں موجود خفیہ اداروں کے سینئر افسران کے سامنے اپنی جذباتی تقریر پر معذرت کی اور معافی بھی مانگی۔
واضح رہے کہ دو روز قبل شام 7 بجے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور تقریباً 8 گھنٹے کے بعد رابطہ بحال ہوا۔ بعدزاں وزیراعلیٰ کے پی رات گئے اسلام آباد سے پشاور روانہ ہوگئے تھے۔ ان کی کمشدگی کے معاملے پر اڈیالہ جیل میں صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں عمران خان نے بھی بڑا انکشاف کیا تھا کہ گنڈا پور کو اسٹیبشلمنٹ نے اٹھا لیا تھا جس کے بعد وہ غائب رہے۔ اس معاملے پر بانی پی ٹی آئی نے ’اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات‘ ترک کردینے کا حتمی مؤقف اختیار کیا تھا۔
نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد کے سینئر صحافی اعزاز سید نے انتہائی باخبر ذرائع کا حوالہ دے کر بتایا کہ ’علی امین گنڈا پور کو ایک طاقتور ادارے کے افسر کی طرف سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی، اس کال کے جواب میں وہ کانسٹیٹوشن ایونیو کے اوپر دفتر پہنچے تب ان کے ساتھ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے۔ مجھے جو اسلام آباد کے ذمہ دار لوگوں نے بتایا کہ ان کے موبائل لے لیے گئے تھے، اس میٹنگ کے اندر کی تفصیلات تو نہیں پتا چل سکی ہیں لیکن جو میں نے ان لوگوں سے بات سنی ہیں جو ویل انفارمڈ (باخبر) ہیں جو بڑی بڑی اونچی فصیلوں کے پیچھے ملاقاتیں ہوتی ہیں ان سے بھی آگاہ ہوتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے انہوں نے بتایا علی امین گنڈا پور ناصرف یہ کہ ایک سرکاری ادارے یعنی خفیہ ادارے کے دفتر گئے بلکہ وہاں جاتے ساتھ اپنی جذباتی تقریر کی معذرت کی اور معافی بھی مانگی ہے، ان کی ملاقات کسی ایک افسر سے نہیں ہوئی، کم سے کم 3 سینیئر لوگ وہاں موجود تھے جن کے سامنے معافی مانگی ہے اور پھر اگلے لائحہ عمل پر بھی بات کی ہے تاہم یہ ضرور بتایا گیا ہے جو علی امین نے تقریر کی تھی اس کے اوپر ان سے افسوس کا اظہار یا ان احتجاج ضرور کیا گیا جس کے جواب میں معافی مانگی گئی ہے‘۔