پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کیلئے نو اور دس ستمبر کافی مشکل بھرا گزرا ہے، خاص طور پر نو اور دس ستمبر کی درمیانی شب ذہنی اذیت سے بھرپور رہی۔
پی ٹی آئی نے آٹھ ستمبر کو اسلام آباد کے سنگجانی میں ایک جلسہ کیا، حالانکہ اس جلسے کا این او سی مبینہ طور پر اسٹبلشمنٹ نے خود دیا تھا، لیکن جلسے کے اختتام پر پی ٹی آئی قیادت کے خلاف تین مقدمات درج کرلئے گئے، جن میں جلسے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں و کارکنان کیخلاف درج مقدمے کی تفصیلات سامنے آگئیں
نو ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں پی ٹی آئی کے اراکین نے بھی شرکت کی، لیکن جوں ہی اجلاس ختم ہوا، پولیس نے قومی اسمبلی کو گھیر کر ریڈ زون سیل کردیا، اور اسمبلی سے نکلنے والی گاڑیوں کی تلاشی شروع کردی۔
اس دوران شیر افضل مروت کی گاڑی باہر آئی تو انہیں گرفتار کرلیا گیا، پھر چئیرمین پی ٹی آئی کی گاڑی روکی گئی اور انہوں نے خود باہر آکر گرفتاری دے دی۔ گرفتاریوں کی خبر جب اسمبلی میں پہنچی تو پی ٹی آئی کے دیگر اراکین اسمبلی میں ہی رُک گئے، اس دوران زرتاج گل پولیس کو چکما دے کر اسمبلی سے نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔
ایک طرف اسمبلی کا گھیراؤ جاری تھا تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شعیب شاہین کو ان کے دفتر سے گرفتار کرلیا۔
اسی دوران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے لاپتا ہونے کی خبریں آنے لگیں، صوبائی وزیر خیبرپختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کا فون بند ہے اور ان سے رابطہ نہیں ہو پارہا۔ علی امین سے گزشتہ شام 7 بجے رابطہ منقطع ہوا اور تقریباً 8 گھنٹے کے بعد رابطے بحال ہوئے۔ بعدزاں وزیراعلیٰ کے پی رات گئے اسلام آباد سے پشاور روانہ ہوئے اور خبر آئی کہ وہ بیمار پڑ گئے ہیں۔
جس پر بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ گنڈاپور کو اسٹیبشلمنٹ نے اٹھا لیا تھا جس کے بعد وہ غائب رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک صوبے کے وزیراعلی کو اٹھا کر آپ نفرتیں بڑھا رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں دھوکا دیا، میں آج سے اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی فریق سے بھی مذاکرات کے دروازے بند کر رہا ہوں۔
پولیس نے رات بھر اسمبلی کے باہر ڈیرا ڈالے رکھا اور علی الصبح اسمبلی میں موجود باقی پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھی گرفتار کرلیا۔ جس پر اسپیکر قومی اسمبلی تمام اراکین اسمبلی کی رہائی کے احکامات جاری کئے۔
پارلیمنٹ احاطہ سے اراکین کی گرفتاری پر اسپیکر کے ’ردعمل‘ کی تفصیلات سامنے آگئیں
تاہم، پولیس نے 10 ستمبر کو تمام گرفتار رہنماؤں کو اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کر دیا۔
گرفتار ہونے والی پی ٹی آئی رہنماؤں میں شیر افضل مروت، شعیب شاہین، شیخ وقاص اکرم، عامر ڈوگر، نسیم شاہ اور احمد چٹھا، بیرسٹر گوہر شامل تھے۔
عدالت میں درج مقدمے پر سماعت ہوئی، اور جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے شیر افضل مروت اور دیگر رہنماؤں کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈمنظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا، لیکن شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
لیکن اسی سماعت کے دوران پولیس نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر کو مقدمے سے ڈسچارج کرکے انہیں رہا کردیا گیا ہے اور عدالت میں بیان دیا کہ انہیں گرفتار کیا ہی نہیں گیا، جس پر بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دنیا نے دیکھا مجھے گرفتار کرکے لے جایا گیا۔