پاکستانی ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ جب تک لانگ ڈسٹنس انٹرنیشنل (ایل ڈی آئی) لائسنس کی تجدید نہیں کرالی جاتی، انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے خلل واقع ہوتا رہے گا۔
آئی ٹی اور ٹیلی کام سے متعلق سینیٹ کی مجلسِ قائمہ کا اجلاس چیئرمین پلوشہ محمد زئی خان کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ایل ڈی آئی لائسنس اور فکسڈ لائن لوکل لُوپ (ایف ایل ایل) لائسنس کی تجدید سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔
پی ٹی اے کے چیئرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن نے کمیٹی کو انٹرنیٹ سروس میں خلل سے متعلق امور پر بریفنگ دی اور بتایا کہ یہ اشو چار بڑی کمپنیوں کو متاثر کرتا ہے جن میں وطین بھی شامل ہے جس کا سندھ اور بلوچستان سمیت چوبیس شہروں میں وسیع فائبر آپٹک انفرا اسٹرکچر موجود ہے۔
میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وطین 44 بینکوں اور نادرا سے بھی جُڑا ہوا ہے جس کے نتیجے میں وہ ملک کا ایک بڑا کمیونی کیشن نیٹ ورک بن چکا ہے۔ کمیٹی بنائے جانے کے باجود لائسنس کی تجدید کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے۔
وطین کا لائسنس جولائی 2024 میں ختم ہوگیا تھا۔ کمپنی نے عدالت کے ذریعے حکمِ امتناع حاصل کرلیا جس نے اُسے کام کرتے رہنے کی اجازت دے دی۔ لائسنس کی تجدید نہ ہونے سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوسکتا ہے۔
پی ٹی اے کے چیئرمین نے بتایا کہ پانچ ایل ڈی آئی کمپنیاں اپنے واجبات ادا کرنے کی خواہش مند ہیں۔ دیگر نے قانونی کارروائی کر رکھی ہے۔ ان کمپنیوں کے لائسنس جولائی اور اگست میں ختم ہونے تھے۔ عدالتوں میں 15 کیس ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2020 میں یہ سہولت دی گئی تھی کہ کمپنیاں اپنے واجبات اقساط میں ادا کریں۔ رواں سال ایسی کوئی رعایت یا سہولت فراہم نہیں کی گئی۔
کمیٹی نے 54 عرب روپے کی چُھوٹ کے بارے میں بھی غور کیا جو ایل ڈی آئی کمپنیاں چاہتی ہیں۔ اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ سابق آئی ٹی سیکریٹری نے اس سلسلے میں پالیسی کے تحت ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے افسران نے اُس کی مخالفت کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیکریٹری نے دائرہ اختیار کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایل ڈی آئی کمپنیوں کے واجبات کے بارے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے سیکریٹری نے اس مسئلے کے حل کے حوالے سے احکامِ امتنازع کو سے ہٹ کر چلنا ہوگا۔ کمیٹی نے مستقبل میں اس قسم کی صورتِ حال کو ٹالنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے وسیع ہدایات کا مطالبہ کیا۔
سینیٹ کی مجلسِ قائمہ کے چیئرمین پرس نے سابق سیکریٹری آئی ٹی کی ذمہ داری کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔ بالخصوص مئی 2024 میں جاری کیے جانے والے ایک مراسلے کے بارے میں جس میں کابینہ کی منظوری بغیر پالیسی کا ہدایت نامہ جاری کیا گیا تھا۔
چیئرپرسن نے اس معاملے کے نگراں افراد کی فہرست مانگی اور یہ بھی پوچھا کہ اُن کے اقدامات قانونی حدود میں تھے یا نہیں۔
سیکریٹری آئی ٹی نے پی ٹی سی ایل بورڈ کی تشیکل پر بریفنگ دی اور بتایا کہ وفاقی حکومت کی ہدایات کے مطابق کمپنی بورڈز پر متعین حکومتی افسران کے معاوضے کی حد 10 لاکھ روپے سالانہ رکھی گئی ہے۔
کمیٹی نے مشیروں کی تعیناتی کے حوالے سے معیارات اور قابلیت کا بھی جائزہ لیا۔ سیکریٹری آئی ٹی نے توضیح کی کہ یہ عہدے کنٹریکٹ کی بنیاد پر پُر کیے جاتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اسپیشل سیکریٹری نے پرائیویٹ سیکٹر سے سیکریٹری آئی ٹی کی ہائرنگ کی تفصیلات بیان کیں۔ چیئر پرسن نے بتایا کہ نظرِثانی کے لیے قائم کمیٹی نے 77 درخواستوں کی جانچ پڑتال کی۔ 15 امیدواروں کو شارٹ لِسٹ کیا گیا ہے۔