نیٹفلکس نے اپنے افسران کو بھارتی وزارتِ اطلاعات و نشریات میں طلب کیے جانے کے بعد قندھار ہائی جیکنگ ڈراما سے متعلق اپنی ویب سیریز پر ایک اور ڈِزکلیمر شامل کرنا پڑا ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی نے نیٹفلکس پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اِس ویب سیریز کی 4 اقساط کو ہٹادیا جائے۔
اے این آئی کا کہنا ہے کہ ویب سیریز IC-814 دی قندھار ہائی جیک کے چار حصوں میں اس کا مواد اجازت لیے بغیر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بات برطانوی نیوز ایجنسی کو اے این آئی کے وکیل نے بتائی ہے۔
یہ ویب سیریز دسمبر 1999 میں نیپال کے دارالحکومت کاٹھمنڈو سے دہلی روانہ ہونے والے انڈین ایئر لائنز کے طیارے کو ہائی جیک کرکے امرتسر، لاہور اور دبئی سے ہوتے ہوئے قندھار لے جانے اور وہاں مولانا مسعود اظہر سمیت تین قیدیوں کے عوض بھارتی مسافروں کو رہا کرنے سے متعلق ہے۔ ہائی جیکرز سے حتمی ڈیل کے لیے اُس وقت کے بھارتی ہوزیرِخارجہ جسونت سنگھ قندھار گئے تھے۔
گزشتہ ماہ اپنے اجرا کے بعد سے اب تک نیٹفلکس کی یہ ویب سیریز تنازعات میں گِھری رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے بہت سے یوزرز اور بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ویب سیریز میں ہائی جیکرز کے نام ہندوانہ دیے گئے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ہندو تھے۔ واضح رہے کہ ہائی جیکرز نے اپنے خفیہ نام رکھتے ہوئے تھے تاکہ اُن کے اصل نام ظاہر نہ ہوں۔
نیٹفلکس انکارپوریشن نے ڈِزکلیمر شامل کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ وہی کوڈ نیم شامل کیے گئے ہیں جو اصل ہائی جیکنگ ڈرامے کے دوران ہائی جیکرز نے استعمال کیے تھے۔
اے این آئی کے وکیل سِدھانت کمار کا کہنا ہے کہ لائسنس اور اجازت کے بغیر اے این آئی کا کاپی رائٹ مٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔
سِدھانت کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ شدید تنقید کے باعث ٹریڈ مارک اور برانڈ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ نیٹفلکس کو وہ چار اقساط نکال دینی چاہئیں جن میں اے این آئی کا مٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے اس حوالے سے کیس کی سماعت پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور نیٹفلکس سے باضابطہ جواب بھی طلب کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی درخواست پر نیٹفلکس کی طرف سے کوئی فوری جواب نہیں دیا گیا۔ اے این آئی میں برطانوی خبر رساں ادارے کا بھی تھوڑا سا اسٹیک ہے۔