4 ستمبر کو فلپائن کی فضا میں ایک شہابِ ثاقب داخل ہوا اور اُس کے پھٹنے سے روشنی کا بہت بڑا جھپاکا ہوا۔ ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں تاہم اِس بار خاص بات یہ تھی کہ زمین کے مدار سمیت پورے ماحول پر نظر رکھنے والے ماہرین اِس شہابِ ثاقب کا بروقت سراغ لگانے اور نشاندہی کرنے میں ناکام رہے۔ اُنہیں اس شہابِ ثاقب کا علم اِس کے پھٹنے سے صرف آٹھ گھنٹے پہلے ہوسکا۔
خلا میں بہت سے سیاروں اور ستاروں کے ٹکڑے گردش کر رہے ہیں۔ یہ سفر کرتے کرتے گھس کر چھوٹے ہو جاتے ہیں تو زمین کے کرہ باد میں داخل ہونے پر جل اٹھتے ہیں اور یوں اِن سے کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ خلا میں ایسی 6 بڑی چٹانیں گردش کر رہی ہیں جن کا زمین سے آ ٹکرانا خارج از امکان نہیں۔ اِن کے ٹکرانے سے زمین پر بہت بڑی تباہی بھی رونما ہوسکتی ہے۔ بعض صورتوں میں اِن کا زمین سے آ ٹکرانا قیامت خیز بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
جو خلائی چٹانیں یا شہاب ہائے ثاقب زمین سے ٹکراسکتے ہیں ان میں بینو، 1950DA، 2023TL4، 2007FT3، 2023DW اور 1979XB شامل ہیں۔ بینو کا قطر 1574 فٹ ہے۔ 1950DA کا قطر 6561 فٹ، 2023TL4 کا قطر 1083 فٹ، 2007FT3 کا قطر 2165 فٹ، 2023DW کا قطر 166 فٹ اور 1979XB کا قطر 2165 فٹ ہے۔ یہ شہاب ہائے ثاقب بالترتیب 24 ستمبر 2182، 16 مارچ 2880، 10 اکتوبر 2119، 5 اکتوبر 2024، 14 فروری 2046 اور 14 دسمبر 2113 کو زمین سے ٹکراسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین سے ان شہاب ہائے ثاقب کے تصادم کا امکان ہے تو سہی مگر بہت معدوم۔ اور ٹیکنالوجی کی مدد سے انہیں خلا ہی میں تباہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس موضوع پر ہالی وُڈ میں کئی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم تھی آرماگیڈن جس میں فٹبال کے میدان کے حجم کی خلائی چٹان کو زمین کی طرف آتا ہوا دیکھ کر ماہرین خلائی جہاز کے ذریعے اس پر لینڈنگ کے بعد بم نصب کرکے اُسے تباہ کردیتے ہیں۔