امریکا اور برطانیہ کے بعد اب کینیڈا میں بھی تارکینِ وطن کی تعداد کم کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کردیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں تارکینِ وطن پر کینیڈا کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔
نئی درخواستوں پر ویزا دینے سے گریز کیا جارہا ہے اور جن کے پاس ویزا موجود ہے اُن میں سے بھی بعض افراد کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جارہا ہے۔ جولائی میں 5853 غیر ملکیوں کو ویزا دینے سے معذرت کرلی گئی اور 285 افراد کو کارآمد ویزا رکھنے پر بھی کینیڈا میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت ڈانواڈول ہے کیونکہ ایک اہم اتحادی نے اپنی سپورٹ واپس لے لی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کے لیے ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ جسٹن ٹروڈو پر تارکینِ وطن کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کرنے پر شدید نکتہ چینی کی جاتی رہی ہے۔
کینیڈا میں تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو مقامی باشندوں کے لیے روزگار کے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور دوسری طرف ہاؤسنگ کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ عمومی سطح پر مہنگائی بھی خاصی بڑھی ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا میں مقیم سِکھوں کی طرف واضح جھکاؤ رکھا ہے جس کے نتیجے میں کینیڈا کے بھارتی نژاد ہندو اُن سے ناراض ہیں جبکہ سِکھوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی کا گراف بھی بلند ہوا ہے۔ بعض مقامات پر اُن کے درمیان تصادم بھی ہوا ہے۔ بھارت میں سِکھوں سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے باعث کینیڈا کے سِکھ فطری طور پر ہندوؤں سے مخاصمت رکھتے ہیں۔
بھارتی قیادت اس بات کا شِکوہ کرتی رہی ہے کہ کینیڈا کے وزیرِاعظم نے خالصتان نواز سِکھوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ بھارت کے احتجاج اور دوطرفہ تعلقات میں در آنے والی کشیدگی کے باوجود جسٹن ٹروڈو خود کو سِکھوں سے کی حمایت سے باز رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔