وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ شواہد بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کی طرف جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈی جی آئی سی پی آر نے فوج کے اندر احتساب کے معاملے پر حالیہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے سیاسی عناصر کے کہنے پر فوجی قوانین کی خلاف ورزی کی، فیض حمید کا کیس وزارت دفاع کے ذریعے فوج کو بھیجا گیا، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع کرنے سے پہلے ٹاپ سٹی کیس کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کورٹ آف انکوائری قائم کی گئی تھی۔
پاکستان اسرائیل تعلقات میں عمران خان کا اہم کردار ہوسکتا ہے- اسرائیلی اخبار میں مضمون
علاوہ ازیں انہوں نے سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف فوجی مقدمے کا عندیہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ فوجی اہلکاروں کو ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا قانونی کارروائی کو دعوت دیتا ہے۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے آج نیوز کے پروگرام ’روبرو‘ میں کہا کہ فیض حمید گرفتاری کے بعد بانی پی ٹی آئی کے ساتھ رفاقتوں کے بارے میں بتا رہے ہوں گے۔ فیض حمید کی خواہش ہوگی کہ سارا ملبہ بانی پی ٹی آئی پر ڈالا جائے۔
انہوں نے کہا کہ نو مئی کو جس شہر میں بھی احتجاج ہوا وہاں خاص طور پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، ’کچھ افراد ان کو ڈائریکٹ کر رہے تھے، اور ایک پلاننگ کہیں سے ہوئی تھی‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ لازمی طور پر عمران خان کی ہدایات تھیں، جس طرح آج عمران خان کو رسائی ہے وہ آرٹیکل لکھتا ہے اس کی جانب سے ٹوئٹس ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اسے رسائی حاصل تھی اور اس طرح کی رسائی اور پلاننگ صرف ایک فوجی ذہن ہی ترتیب دے سکتا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ایک غم عمران خان کو اپنا اقتدار چھن جانے کا تھا تو دوسرا غم جنرل فیض کو بھی تھا۔ ’پہلے پانچ کی لسٹ میں ان کا نام تھا، وہ آرمی چیف بننا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) یعنی میری پارٹی کی قیادت سے بھی رابطہ کیا، اور انہوں نے یقین دہانیاں بھی کرائیں کہ اگر آپ مجھے آرمی چیف بنانے کی حمایت کریں گے تو میں وفاداری کے ساتھ ساتھ نبھاؤں گا، انہوں نے کچھ ضمانتیں بھی دیں‘۔
ملکی سیاست میں ہلچل، چوہدری شجاعت کی پارٹی سربراہان اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں
وزیر دفاع نے کہا کہ ان ساری شکایات میں موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد زیادہ شدت آگئی، اُن کو روکنے کیلئے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ پاک فوج میں اندرونی خلفشار اور فوج کی معرفت سے عوام میں خلفشار پھیلائیں اور نو مئی اس کا ایک بڑ شاخسانہ تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی ایسی حدود کراس کرے جو فوج کے ساتھ تصادم یا پاکستان کی سالمیت کے معاملات کے دائرے میں لے جائے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی ثبوت سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق ’دن بدن یہ چیز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان کا ٹرائل وہاں (ملٹری کورٹس) ہوگا‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’جنرل فیض جب سے گرفتار ہوئے ہیں، اب لازمی طور پر جنرل فیض اپنی جو بھی ان کی رفاقت رہی ہے عمران کان صاحب کے ساتھ اس کی داستانیں وہ سنا رہے ہوں گے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنرل فیض کی بھی خواہش ہوگی کہ میں سارا ملبہ کسی اور پر ڈالوں، میں اس سازش میں شریک بھی تھا تو کہیں گے کہ سارے محرکات عمران خان کے تھے، میرے کوئی مقاصد نہیں تھے، وہ وزیراعظم تھا میں ڈی جی آئی ایس آئی تھا میں اس کا حکم مانتا تھا۔
جنرل (ر) باجوہ کے بغیر فیض حمید کا ٹرائل بڑی بدنیتی ہے، عمران خان
خواجہ آصف کے مطابق دونوں کے پاور سے ہٹنے کے بعد دونوں نے جو کوشش کی ہے ملک پر قبضہ کرنے کی اور فوج میں بغاوت بپا کرنے کی وہ ناکام ہوئی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پی ٹی آئی والے کہتے تھے اکتوبر میں ہماری حکومت آرہی ہے، اس کا پس منظر یہ تھا کہ انہوں نے عدلیہ سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔
وزیر دفاع نے ججز کی تعداد بڑھانے کے بل پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جس ملک کے اندر 27 لاکھ کیسز زیر التوا ہوں اور 140 کے ٹیبل پر آپ کی پوزیشن 130 ویں ہو تو میرے خیال میں ججز 21 کی جگہ پچاس ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو انصاف سرعت کے ساتھ ملے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے نام تجویز کرے گی، وہ نام پارلیمانی کمیٹی میں آئیں گے، کمیٹی ان ناموں کی تقثیق کرے گی، اس کا پورا پراسیس آئینی ہے۔
عمران خان کے نیب افسران کو دھمکیاں دینے کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ میری بیگم پر انہوں نے کیس بنایا، میری بیگم نے کم از کم تیس پیشیاں بھگتیں، ’ایناں دی بیگم جیڑی کوئی سپیشل اے گی اے، آسمان تو آئی دی اے گی اے‘، لوگوں کے بچوں، بیگمات کا کوئی تقدس نہیں ہے؟ سارا تقدس کیا ان کے گھر پہنچ گیا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ نیب میں ترامیم کا سلسلہ جب شروع ہوا اس وقت پرویز خٹک وزیر دفاع تھے، انہوں نے ہم سے رابطہ کیا ہم نے ان سے اتفاق کیا، اس کی کلیئرنس جنرل فیض کی طرف سے آئی کہ بات چیت شروع کریں، وہ بات چیت اسپیکر اسد قیصر کے گھر ہوتی تھی اور اس کمرے کے باہر چار بندے آئی ایس آئی کے بیٹھے ہوتے تھے، اس قسم کی قانون سازی ہوتی تھی۔
خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ جنرل فیض قانون سازی، الیکشن اور حکومتی امور کے اتنے حساس معاملات میں مداخلت کرتے تھے تو کیا نو مئی ان کے بغیر ہوگیا ہوگا؟
وزیراعظم کی جانب سے وزارتوں کو ختم کرنے کا فارمولہ سامنے آگیا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف عمران خان سے مذاکرات کیلئے آخری حدوں تک گیا ہے، شہباز شریف نے غیر مشروط آفر کی، لیکن انہوں نے ایک دفعہ بھی سیاسی قوتوں سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔