پاکستان میں رشتہ ایپ کا غلط استعمال کر کے خواتین کے ساتھ فراڈ کیا جا رہا ہے۔
عام طور پر پاکستانی معاشرے میں اکثر رشتے والدین، رشتہ داروں اور رشتہ کروانے والی خواتین کے ذریعے ہی طے پاتے ہیں لیکن حالیہ چند برسوں میں اس میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے۔
ایسے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں جب شریک حیات کی تلاش میں اکثر خواتین رشتہ ایپ کا استعمال کر کے دھوکے کا شکار ہوجاتی ہیں۔
رشتہ ایپ پر ملنے والے بعض مرد خواتین کے ساتھ ٹائم پاس کرنے کیلئے ہوتے ہیں تو بہت سے مرد پہلے سے ہی شادی شدہ نکلتے ہیں۔
ڈیٹنگ میں بھی مصنوعی ذہانت کا استعمال، خواتین مردوں کے جھوٹ پکڑنے لگیں
بی بی سی کے مطابق رشتہ ایپلیکیشن استعمال کرنے والی متعدد خواتین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان پلیٹ فارمز پر انھیں ایسے شادی شدہ مردوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جو نہ صرف اپنی غلط معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ مختلف طریقوں سے شادی کی خواہشمند خواتین کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ایپ کا استعمال کرنے والی حبہ نامی خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ میں اپنے رشتے کی تلاش کے لیے اس ایپ پر آئی مگر پتہ چلا کہ اگرچہ یہ رشتہ ایپس ہیں مگر اس میں اکثر مرد محض اس کا استعمال ’ڈیٹنگ‘ میں دلچسپی رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ملے جو غلط معلومات دے کر محض وقتی تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔
بی بی سی کے مطابق حبہ کا کہنا تھا کہ مجھے پانچ مرد ایسے ملے جنھوں نے شادی کیلیے سنجیدگی کا اظہار کیا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ مرد پہلے سے ہی شدہ تھے۔ ایک سے تو میری ملاقات بھی ہو چکی تھی، جبکہ ایک اور کیس میں بعدازاں معلوم ہوا کہ خود کو کنوارہ ظاہر کرنے والے ایک شخص کی اپنی 17 سال کی بیٹی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ہم سفر کی تلاش میں ہوں لیکن مردوں کو خواتین کے جذبات سے کھیلنے سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔
ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میں نے ایپ پر موجود ایک شادی شدہ مرد سے کھل کر بات کی اور پوچھا کہ وہ خود کو غیر شادی شدہ کیوں ظاہر کر رہے ہیں جبکہ اس ایپ پر بیشتر خواتین اپنے رشتے کی تلاش کے ارادے سے آتی ہیں۔
میں نے کہا کہ اگر مجھے وقتی تعلق یا ڈیٹنگ میں دلچسپی ہوتی تو میں بمبل یا ٹنڈر استعمال کرلیتی۔ میں مُز کیوں استعمال کرتی؟ جس پر اس شخص نے جواب دیا کہ کاش میری ملاقات آپ سے بمبل پر ہوئی ہوتی۔
اگرچہ بیشتر رشتہ ایپس کی پالیسی کے مطابق رشتوں کے لیے مصنوعی ذہانت استعمال کر کے تصاویر تخلیق کرنا اور جعلی شناخت کے استعمال سے لے کر افسانوی زندگی کی کہانیاں گھڑنا اور ہراسانی سخت ممنوع ہے مگر بدقسمتی سے خواتین کو اس سب کے باوجود ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔