برطانیہ کے دو سینیر پروفیسرز نے کہا ہے کہ برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کا نظام نقائص کا شکار ہے۔ بیرونی طلبہ انگریزی میں مہارت سمیت متعدد بنیادی شرائط پوری نہیں کر پارہے مگر پھر بھی اُنہیں ڈگریاں دی جارہی ہیں۔
پروفیسرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر بیرونی طلبہ کو معمولی قابلیت کے باوجود ڈگریاں دی جاتی رہیں تو عالمی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے برطانوی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگ جائے گی۔
رسل گروپ سے تعلق رکھنے والے کیمبرج سسٹم کے پروفیسرز نے بلاگز میں کہا ہے کہ بیشتر بیرونی طلبہ کی استعداد اِتنی نہیں ہوتی کہ اُنہیں اعلیٰ تعلیم کی ڈگری دی جائے مگر اِس کے باوجود وہ ڈگریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ بہت سے طلبہ انگریزی میں مہارت کی انتہائی بنیادی شرط بھی پوری نہیں کرتے۔
پروفیسرز کا کہنا ہے کہ بیرونی طلبہ کی اکثریت انگریزی کا کوئی اور زبان سیکھنے کے بجائے ٹرانسلیشن ایپس کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ انگریزی سیکھنے کے بجائے محض ترجمہ کرکے بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں اُن کی کارکردگی بہتر نہیں ہو پاتی اور وہ بہتر معاشی امکانات اپنے لیے یقینی نہیں بنا پاتے۔
دونوں سینیر پروفیسرز کا کہنا ہے کہ ایک دور وہ بھی تھا جب برطانیہ میں ماسٹرز کی سطح پر دی جانے والی تعلیم انتہائی دشوار اور چیلینجنگ ہوا کرتی تھی۔ ماسٹرز کی سطح پر برطانوی اداروں پڑھنے والے کچھ بن کر ہی نکلتے تھے اور جب وہ دنیا بھر میں کام کرتے تھے تو لوگ اُنہیں اُن کے اداروں کے معیار کی بنیاد پر پرکھتے تھے۔
فی زمانہ بہت کم قابلیت رکھنے والے بیرونی طلبہ بھی برطانوی اداروں سے ماسٹرز ڈگری لے اُڑتے ہیں۔ ایسے کم اہلیت والوں کو دیکھ کر دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہوسکتا ہے کہ برطانوی اداروں کو اب صرف کمانے سے غرض ہے۔ برطانیہ کا تعلیمی نظام عالمی سطح پر معروف و مقبول ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے طلبہ آج بھی برطانیہ آکر تعلیم حاصل کرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
دونوں سینیر پروفیسرز کا کہنا ہے کہ معاملہ بہت نازک ہے۔ اس حوالے سے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنی چاہیے اور تعلیمی اداروں کو بھی اپنا معیار بلند رکھنے کے لیے صرف انرولمنٹ سے غرض نہیں ہونی چاہیے بلکہ اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ وہ بیرونی طلبہ میں مطلوب قابلیت پیدا کریں، اُنہیں اِس قابل بنائیں کہ جب وہ برطانوی اداروں سے ڈگریاں لے کر کہیں خدمات انجام دیں تو لوگ اُنہیں دیکھ کر برملا کہیں کہ برطانوی اداروں کا معیار تو واقعی بہت بلند ہے۔