افسوس ہوتا ہے کہ اس ایوان میں بلوچستان کے واقعات پر بحث نہیں ہوتی ، صرف رونما واقعات کی مذمت کی جاتی ہے میر جمال خان رئیسانی نے کہا کہ کیا اس ملک میں پنجابی،بلوچ، سندھ، پشتون اور ہزارہ کے خون کی قیمت یا رنگ الگ الگ ہے؟ بی ایل اے کو مخاطب کرکے کہتا ہوں بلوچستان ایک کیک کا ٹکڑا نہیں۔
ایم این اے نوابزادہ میر جمال خان رئیسانی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ایوان میں موجود بزرگوں سے سوال کرنا چاہوں گا، کیا اس ملک میں پنجابی، بلوچ، سندھ، پشتون اور ہزارہ کے خون کی قیمت یا رنگ الگ الگ ہے؟ اگر نہیں تو ہم اس دہشتگردی کے خلاف متحد کیوں نہیں ہوسکتے؟ کیا ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ ہمیں دہشتگردی کی لعنت کےخلاف یکجا ہونا ہوگا۔
جمال رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ کل اپوزیشن لیڈر نے بلوچستان کے بارے میں آدھا گھنٹہ بات کی اپنی تقریر میں وہ بار بار بلوچوں کو بلوچی کہہ رہے تھے، ہم بلوچی نہیں،بلوچ ہیں اور بلوچی ہماری زبان ہے اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ آپ بلوچستان کے مسئلے پر کتنا سنجیدہ ہو۔
مسنگ پرسنز کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک بہت ہی اہم اور حساس مسئلہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کو ہم حل کی طرف بڑھائیں۔ ماضی میں مسنگ پرسنز مسئلے پر کیے گئے اقدامات ناکافی تھے، اس معاملے پر ایک سنجیدہ کمیٹی بنانی چاہیے، ابھی تک تو ایسا لگتا ہے کہ آئیں اور چائے پئیں والا معاملہ چل رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں بلوچستان کےایم این ایز آکر ایوان میں حقائق نہیں بتاتے، ہم اگر اس ایوان میں بیٹھے ہیں تو سر پر کفن باندھ کر بیٹھے ہیں، اگر آج ہم یہاں کھڑے ہیں شاید کل ہم یہاں نہ ہوں، ہم میں حقیقت بیان کرنے کی اتنی جرات ہے کہ ان تنظیموں کا نام لیتے ہیں، یہ کیوں ان تنظیموں کا نام نہیں لیتے جو نہتے شہریوں کو شہید کررہے ہیں؟
جمال رئیسانی نے کہا کہ یہ کیوں ملک کو توڑنے کی کوشش کرنے والے بی ایل اے اور بی ایل ایف کا نام نہیں لےسکتے، اگر آپ بلوچستان کا نام لیتے تو جرات بھی پیدا کریں کہ حقیقت بیان کرسکیں۔ شناختی کارڈ پر کہیں نہیں لکھا کون بلوچ اور کون پنجابی ہے، شناختی کارڈ ایک چیز واضح لکھا ہے اور وہ ہے پاکستان، یہ بلوچ ،پنجابی،پشتون اور سندھی کی لڑائی نہیں، یہ پاکستانیوں اور دہشتگردوں کے درمیان جنگ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بی ایل اے کو مخاطب کرکے کہتا ہوں بلوچستان ایک کیک کا ٹکڑا نہیں، ہم بھی یہاں کھڑے ہیں، ہم نے بھی قربانیاں دی ہیں،بلوچستان ہمارا ہے، ناراض بلوچ ہم ہیں جو اپنے تمام تر تحفظات لیکر اس ایوان میں نمائندگی کررہے ہیں، ناراض بلوچ وہ ہیں یہ بلوچستان میں آئین کے دائرے میں رہ کرحقوق اور امن چاہتے ہیں۔