پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پریس کانفرنس کا مقصد قومی سلامتی کے معاملات سے جڑا ہے، داخلی سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف کیے گئے اقدامات کا احاطہ کرنا ہے۔ انہوں نے دوران پریس کانفرنس ایک سوال کے جواب میں تفصیل سے بتایا کہ کس طرح فوج مخصوص علاقے دہشت گردوں سے پاک کرتے ہیں لیکن پھر حکومتی عملداری میں فقدان کے باعث ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے۔
انہوں نے دوران پریس کانفرنس متعدد معاملات پر بات کی اور صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔ رواں سال 32 ہزار172 آپریشنز سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات پر ایک خاتون صحافی نے پوچھا کہ اگر اتنے آپریشنز کیے گئے تو دہشت گردی کے واقعات میں کمی کیوں نہیں آرہی، کیا یہ آپریشنز کی کارکردگی پر سوال نہیں؟
جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’پاکستان فوج بڑھ چڑھ کر وفاقی، صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ کی اعانت کرتی ہے اور صحت کے تعلیم کے روزگار کے ترقی کے متعدد منصوبے خیبرپختونخوا، بلوچستان میں پاک فوج کے یونٹس اور فارمیشن ہیں وہ یہ کام کرتی ہیں‘۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کلیئر اور ہولڈ کے بعد بلڈ اور ٹرانسفر کا مرحلہ مکمل نہیں ہورہا اس سے ہو یہ رہا ہے کہ حکومت کی جو اجارہ داری ہے اس کا اہم انحصار وہ فوجی آپریشنز پر رہ گیا، ان علاقوں میں حکومتی اجارہ داری کا ذریعہ یہ فوجی آپریشنز نہیں ہو سکتے خالی اور اس کی وجہ سے دوسرا یہ ہورہا ہے کئی ایسے علاقوں کو ہمیں بار بار کلیئر کرنا پڑ رہا ہے، اس کا نقصان یہ ہے کہ بلڈ اور ٹرانسفر کے نہ ہونے کی وجہ سے آرمی کی جو لمبے عرصے تک اس علاقے میں تعیناتی ہے اس کے اپنے مسائل ہیں اور اس کی وجہ سے فوج کے خلاف ایک زہریلا بنانے کا لوگوں کو موقع مل گیا ہے، یہ صرف ایک وجہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری وجہ ہمیں اعداد و شمار شواہد بتاتے ہیں کہ اگست 2021 کے بعد سےفتنہ الخوارج اور دہشتگرد جو ہیں ان کی سہولت کاری بڑھ چکی ہے جب سے افغانستان میں تبدیلی آئی ہے، یہ سہولت کاری چاہے ٹریننگ کیمپس کی شکل میں ہو یا نقل و حمل کی مدد فراہمی کی صورت میں یا یہ افغان شہریوں کی خود فتنہ الخوارج میں شامل ہونے کی شکل میں ہو چاہے خود کش بمباروں، یا چھوڑا ہوئے امریکی اسلحے کی جدید فراہمی کی شکل میں ہو یہ بڑھ چکی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی مکمل پریس کانفرنس کے لیے یہاں کلک کریں۔