فوج کے اندر احتساب کے معاملے پر خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ خاص طور پر سوشل میڈیا پرغلط معلومات اور پروپیگنڈا پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا کیس وزارت دفاع کے ذریعے فوج کو بھیجا گیا، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع کرنے سے پہلے ٹاپ سٹی کیس کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کورٹ آف انکوائری قائم کی گئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی فوج میں اپنے عہدے کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے یا سیاسی ایجنڈے پر عمل کرتا ہے تو فوج کا خود احتسابی کا طریقہ کار عمل میں آئے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ گرفتار افسران کو ان کی پسند کا وکیل مقرر کرنے اور اپیل کا حق دینے سمیت حقوق دیئے جائیں گے۔
’ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں‘ پر جنرل فیض حمید گرفتار
جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے سلسلے میں مزید 3 ریٹائرڈ فوجی افسران گرفتار، نام سامنے آگئے
جنرل (ر) فیض کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کیا جائے، عمران خان کا آرمی چیف سے مطالبہ
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس پر زیادہ بات نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ زیر سماعت کیس ہے لیکن جو ضروری ہوا وہ عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے گا اور یہ کہ جو بھی شخص اس کیس میں ملوث ہو گا وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ پائے گا۔
انہوں نے کہا کہ شواہد پر مبنی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ فیض حمید نے فوج کے قانون کی کئی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانب سے آرمی ایکٹ کی متعدد خلاف ورزیاں بھی سامنے آئیں اس لیے ان بنیادوں پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو 12 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ “سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے، پاک فوج کی جانب سے ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی، تاکہ شکایات کی درستگی کا پتہ لگایا جا سکے۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے ایک بیان میں کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف سٹی کیس بنایا گیا۔