وفاقی حکومت نے پہلے مرحلے میں 33 ریاستی اداروں کو بند، ڈیڑھ لاکھ خالی ریگولیٹری عہدوں کو ختم اور 6 وزارتوں کی غیر اہم سروسز کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق وزیرِاعظم نے 21 جون 2024 کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وفاقی حکومت کی تنظیمِ نو کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا مقصد وفاقی حکومت کے اداروں کے بارے میں تجویز دینا تھا جو نجی طریقے سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر اہم امور کے علاوہ اثاثوں، انسانی وسائل، اور دیگر متعلقہ مسائل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے واضح حکمت عملی، طریقہ کار، اور آگے بڑھنے کا ٹھوس منصوبہ تجویز کرنا بھی کمیٹی کی ذمہ داری تھی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ کمیٹی نے زیر غور وزارتوں اور ڈویژنز کی وزارتوں اور انتظامی سیکرٹریوں کے ساتھ دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاورت کی اور اپنی ٹرمز آف ریفرنس میں بیان کردہ معیار کے خلاف وفاقی حکومت کے مختلف اداروں کا بھی جائزہ لیا۔
مزید برآں کمیٹی نے مختلف حقوق کے اختیارات و عملدرآمد کے منصوبوں کے ممکنہ مالی، ادارہ جاتی اور انسانی وسائل کے اثرات کا بھی جائزہ لیا تھا۔ عالمی بینک کی جانب سے فراہم کردہ کنسلٹنٹس کی آن لائن ٹیم کی رائے کے ساتھ بین الاقوامی بہترین طریقوں کو بھی مدنظر رکھا گیا۔
سرکاری اداروں کی درجہ بندی میں تاخیر پر وزیرِ اعظم کا اظہارِ ناراضی
یہ تجاویز 16 اگست 2024 کو وزیراعظم کو پیش کی گئیں جنہوں نے تفصیلی جائزے کے بعد کمیٹی کی سفارشات کو کچھ ترامیم کے ساتھ منظور کیا جس کے لیے 19 اگست 2024 کو وزیراعظم آفس کی جانب سے ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ پہلے مرحلے میں وفاقی حکومت کو حقوق دینے کی تجویز کو اسی کے مطابق حتمی شکل دی گئی۔
تجویز کے مطابق: (1) تنظیمِ نو کے پہلے مرحلے کے نتیجے میں 60 فیصد خالی مستقل عہدوں (تقریباً 1,50,000 تک) کو ختم کرنے یا غیر فعال قرار دینے کی سفارش کی گئی۔ (ii) عمومی، غیر بنیادی خدمات (صفائی، پلمبنگ، باغبانی وغیرہ) کی آؤٹ سورسنگ، جس کے نتیجے میں بی پی ایس 1 سے 16 تک کے عملے کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ (iii) ہنگامی عہدوں کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ (iv)ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی تاکہ ملازمین جو حقوق کی تنظیمی عمل کے نتیجے میں متاثر ہوں، کی نمائندگی کو سنبھالا جا سکے۔ اس کمیٹی کو نیم عدالتی اختیارات حاصل ہوں اور اس میں اعلیٰ عدالتوں کے ریٹائرڈ ججوں کی نمائندگی ہو۔ قانون و انصاف ڈویژن کو کمیٹی اور اس کے قواعد و ضوابط تجویز کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔(v)سول سرونٹس ایکٹ 1973ء میں ترامیم کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی ڈویژن کے سامنے پیش کی جائیں گی(vi) سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترامیم کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی کے کیسز ڈویژن کے سامنے پیش کی جائیں۔(vi) سول سروس ریفارمز کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، کابینہ ڈویژن، لاء اینڈ جسٹس ڈویژن اور فنانس ڈویژن کی نمائندگی ہوگی جو اس مقصد کے لیے پہلے سے تشکیل دی گئی رائٹسائزنگ کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ اور(vii) وفاقی حکومت کے حقوق سے متعلق کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لئے دو ہفتوں کی مدت تجویز کی گئی تھی۔
وزیراعظم کا تمام حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا اعلان
پہلی پانچ وزارتوں کے حقوق کے پہلے مرحلے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ کل 82 اداروں میں سے 33 کو بند کرنے، نجکاری یا منتقل کرنے کی سفارش کی جا رہی ہے جبکہ انضمام کے ذریعے 9 کو کم کیا جائے گا۔
کابینہ کو مزید آگاہ کیا گیا کہ حقوق کے دوسرے مرحلے میں مندرجہ ذیل کو شامل کیا جائے گا: (1) سرمایہ کاری بورڈ؛ (ii) وزارت تجارت؛ (iii) نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ؛ (4) ہاؤسنگ اور ورکس؛ اور (5) سائنس اور ٹیکنالوجی۔
کابینہ نے تفصیلی غوروخوض کے بعد وفاقی حکومت کے حقوق سے متعلق کمیٹی (فیز ون) کی سفارشات کی منظوری دی۔
کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ وزیر منصوبہ بندی سول سروس اصلاحات سے متعلق کمیٹی کی سربراہی کریں گے جسے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے نوٹیفائی کیا جائے گا۔
کمیٹی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، کابینہ ڈویژن، لاء اینڈ جسٹس ڈویژن اور فنانس ڈویژن کی نمائندگی ہوگی۔ کمیٹی وفاقی حکومت کے حقوق سے متعلق کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور چار ہفتوں میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
کابینہ نے وفاقی حکومت کے حقوق (فیز ون) کے نفاذ کے منصوبے کو دو ہفتوں میں حتمی شکل دینے کی ہدایت کی۔