بھارت آبادی اور رقبے کے لحاظ دنیا کے بڑے ملکوں میں شامل ہے، اپنے پروسیوں کے مقابلے میں اس کی معیشت بھی بڑی ہے۔ مگر اس کے ہاں بے روز گاری اور عام آدمی کی غربت سے مرنے کے تناسب کی اونچائی بھی ہمالیہ کی طرح ہے۔
بھارت نے تعلیم اور میرٹ پر آنے والوں کو نوکریوں سے دور رکھنے کے لیے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد جیسا کوٹہ سسٹم تو ایجاد نہیں کیا، لیکن سرکاری روز گار کا حصول عام آدمی کے لیے ایسے مشکل بنا دیا ہے کہ نوکری کے لیے لڑتا لڑتا ہی نہیں بھاگتا بھاگتا بھی مرجائے مگر ذمہ داری مودی سرکاری پر نہ آئے۔
ایسی ہی ایک مثال بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ سے سامنے آئی ہے، جہاں محض 583 اسامیوں کے لیے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں پانچ لاکھ درخواست گزار اور بے روز گار قطاروں میں لگ گئے۔
لیکن حکومت نے ایکسائز کانسٹیبلز کی اس ملازمت کے لیے دس کلومیٹر کی دوڑ کو جسمانی طبی معائنے کے حصے کے طور پر شامل کر دیا، تاکہ دوڑتے رہو اور دوڑتے دوڑتے خود ہی روزگار کی اس دوڑ سے باہر ہو جاؤ اور مودی سرکاری کے خلاف کوئی بری بات کہنے کے بجائے خود کو کوستے رہو اور یا پھر کوسنے سے پہلے ہی مرجاؤ۔
جیسا اس معاملے میں ہوا کہ 10 کلو میٹر کی اس دوڑ میں دوڑتے دوڑتے 12 بے روزگار زندگی دوڑ ہار گئے۔ البتہ مودی سرکاری جیت گئی کہ اس پر ایسا کوئی الزام نہیں لگا کہ اس نے لوگوں کو میرٹ پر نوکری دینے سے انکار کیا یا کوئی حسینہ برانڈ قسم کو کوٹہ سسٹم مسلط کر دیا۔
اہم بات ہے کہ پاکستان میں تو عام پولیس کے لیے بھی پولیس میں بھرتی ہونے والوں کو تقریباً دو کلومیٹر کی دوڑ میں مقابلہ کرنا پڑتا ہے، لیکن بھارت نے ایکسائز پولیس کی بھرتی کے لیے جان لیوا یعنی دس کلو میٹر کے دوڑ مقابلے کو شرط بنا دیا۔
سوشل میڈیا میں اس ظالمانہ روزگاری اسکیم پر آوازیں اٹھیں تو حکومت نے ایک انکوائری کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ جھارکھنڈ میں اب تحقیقات ہوں گی اور آسانی سے ہارٹ اٹیک ٹائپ نتیجہ نکل آئے گا۔
بھارتی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے دوڑ کی وجہ سے درخواست گزاروں کا پہلے بلڈ پریشر کم ہوا اور پھر انہیں ڈی ہائیڈریشن کا ایشو ہو گیا، جو بعد ازاں دل کی دھڑکن رکنے کا سبب بن گیا۔
جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ اورنگ گپتا نے بھی دوڑ کے دوران 12 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔