جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کا معاملہ حل ہوگیا ہے، پولیس کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو ایک کیس میں ویریفکیشن کے طلب کیا گیا تھا انہیں اہلیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔
ڈاکٹر ریاض کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ڈاکٹر ریاض آج سینڈکیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے گھر سے سوا ایک بجے نکلے تھے، تاہم، نہ تو وہ جامعہ پہنچے اور نہ ہی اب ان سے رابطہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انجمن اساتذہ کا پر زور مطالبہ ہے کہ انتظامیہ اور متعلقہ ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔
سینڈیکیٹ اجلاس میں شریک ایک رکن کے مطابق ڈاکٹر ریاض اجلاس میں غیر حاضر تھے، انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے سیکریٹری ڈاکٹر اسد خان تنولی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے جامعہ کراچی سنڈیکیٹ کے رکن اور ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اطلاقی کیمیا ڈاکٹر ریاض احمد کی پراسرار گمشدگی پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جامعہ کی انتظامیہ اور حکومت سندھ سے مطالبہ کیا تھا کہ ڈاکٹر ریاض کو ڈھونڈنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
خیال رہے کہ جامعہ کراچی کے رکن سنڈیکیٹ ڈاکٹر ریاض احمد کا ایک بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے میں کراچی یونیورسٹی بیرونی دباؤ کا شکار ہے جبکہ ہم اراکین ہونے کے باوجود جامعہ کی ڈھال بننے میں ناکام ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان عناصر کو سامنے لائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹ کا اجلاس عین وقت پر سیکریٹری بورڈز کی ہدایت پر ملتوی کر دیا گیا تھا، سنڈیکیٹ ایجنڈے میں ایک حاضر سروس ہائی کورٹ جج کی ڈگری پر 40 سال بعد اعتراض رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا تھا کہ سنڈیکیٹ اجلاس سے دو ہفتہ قبل انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر انفیرمینز (یو ایف ایم) کمیٹی سے یکطرفہ کارروائی کرائی گئی اور اب یہ معاملہ سنڈیکیٹ میں لا کر اسلام آباد میں اقتدار کی رسہ کشی میں کراچی یونیورسٹی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا وجہ ہے بیرونی عناصر اس قدر دیدہ دلیری سے حملہ آور ہیں اور یونیورسٹی کو نجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے آلہ سمجھتے ہیں، انتظامیہ کی کمزوری تو ہے ہی لیکن اس سے کہیں زیادہ ہم اساتذہ اور ہم منتخب نمائندوں کی بھی کمزوری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سنڈیکیٹ اراکین اور ٹیچرز سوسائٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بیرونی حملوں کے پیش نظر یونیورسٹی کی ڈھال بنیں، کٹس اور سنڈیکیٹ اراکین کو ہمارے اختیار کی پامالی اور یونیورسٹی کو کھلواڑ سمجھنے والے عناصر کو سامنے لانا ہوگا۔