ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق درخواست پراسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع کو دواگست بروز پیر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ درخواست کی سماعت پر ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ وکیل اسمتھ کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئیں۔
عافیہ صدیقی کی حوالگی سے متعلق وزارت دفاع نے جواب عدالت میں پیش کیا جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ 27 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی حکام کے حوالے کرنے سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی۔
عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنے سے متعلق 2 سوالات کے جواب طلب
آج ہونے والے سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی امریکا کو حوالگی میں ایجنسیوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ نمائندہ وزارت دفاع کا موقف تھا کہ جو بھی الزامات لگائے گئے ہیں اس میں آئی ایس آئی ملوث نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ سے وقت مانگ رہا ہوں کیونکہ اس میں وقت لگے گا جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو پیر تک کا وقت دے رہا ہوں ورنہ 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔
امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ پھر جنسی زیادتی کا انکشاف
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے امریکہ میں عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست کرنی ہے اس میں کیا ایشو اٹھایا گیا ہے کوئی سمجھ نہیں آ رہی اس لیے اس ان کی درخواست کو حکومت کے سامنے رکھا جائے۔ بعدازاں عدالت نے عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل سماعت میں عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئیں اور عدالت کو بتایا تھا کہ عافیہ صدیقی کی واپسی کی کنجی حکومت پاکستان کے پاس ہے، نومبر سے حکومت ہماری مدد کرے جو بائیڈن حکومت کے ہوتے ہوئے عافیہ کا معاملہ حل ہونا چاہیئے، نئی امریکی حکومت کے آنے کے بعد معاملہ التواء کا شکار ہو جائے گا۔