افغان طالبان کی فوج کے سربراہ قاری فصیح الدین فطرت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے اندر حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کرتی ہے۔
بدھ کے روز کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قاری فصیح الدین فطرت کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر کے علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے اور وہاں سے ہی اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کرتی ہے۔
فصیح الدین فطرت نے کہا کہ ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہے۔ ٹی ٹی پی کے پاکستان میں اڈے ہیں اور وہ وہاں کے کچھ علاقوں کو کنٹرول بھی کرتی ہے اور وہ وہیں سے پاکستان کے اندر حملے کرتی ہے۔‘
طالبان آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اب تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ طالبان ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
خوارج ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں، ترجمان دفتر خارجہ
ان کا کہنا تھا، ’پاکستان کو اپنی کوتاہیوں کا الزام بار بار افغانستان پر نہیں لگانا چاہیے اور ہم یقیناً ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو یہاں سے نہ ہی فنڈنگ مہیا کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں لیس کیا جاتا ہے۔‘
خیال رہے کہ افغانستان کے لیے اسلام آباد کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا تعلق افغانستان کے مسئلے سے ہی ہے۔
مینگورہ میں امن مظاہرہ: سوات مزید بدامنی کا متحمل نہیں ہوسکتا، مظاہرین
انہوں نے افغانستان کے طالبان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ سرحد پار خونریزی کرنے والے عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے ساتھ اپنے تعلقات کی وضاحت کریں۔
اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کے دوران آصف درانی نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا تعلق افغانستان کے مسئلے سے ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کو ایک ساتھ مل کر ٹی ٹی پی کی لعنت سے نمٹنے کی ضرورت ہو گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان کو ’ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنی نظریاتی مماثلت کی شبیہ کے بارے میں وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ وہ کم سے کم (دو طرفہ) پائیدار تعلقات کے لیے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔‘