بنگلا دیش میں سیاسی عدمِ استحکام ابھی پوری طرح دور بھی نہیں ہوا تھا کہ سیلاب نے اِس ملک کے لوگ آلیا۔ بنگلا دیش کے طول و عرض میں 50 لاکھ سے زائد افراد سیلاب کے ہاتھوں بے گھر ہوچکے ہیں اور اب کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت معاملات کو درست کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پنچاس لاکھ سے زائد سیلاب زدگان کی امداد یقینی بنانا ایک بڑا ٹاسک ہے مگر اِس سے بڑا ٹاسک ہے بھارت کو اس معاملے سے فائدہ اٹھانے سے روکنا یا باز رکھنا۔
بھارتی میڈیا نے، پہلے ہی بنگلا دیش کی سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے انتہائی نوعیت کی ڈِز انفارمیشن پھیلا رہے تھے، اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں سے انتہائی امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق بنگلا دیش کے ہندو یہ کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں کوئی نہیں گِنتا کیونکہ وہ ہندو ہیں۔ اِن ہندوؤں کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے آگ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے کی جانے والی کارروائیوں میں ہندوؤں کو بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے بتایا ہے کہ اُس سے گفتگو کرتے ہوئے بنگلا دیش کے بہت سے ہندوؤں نے بتایا ہے کہ بنگلا دیشی حکومت سیاسی بحران کے دوران بھی اُنہیں نظر انداز کرتی رہی اور اب بھی اُنہیں امداد نہیں دی جارہی۔ اِن ہندوؤں کا واویلا ہے کہ اُنہیں صرف ہندو ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔
بنگلا دیش کے حالیہ بحران کے دوران اور شیخ حسینہ واجد کے استعفے کے بعد بھی بھارتی میڈیا کا کردار خالص جانب دارانہ رہا ہے۔ ایسی رپورٹس شائع کی گئی ہیں جن کا مقصد بھارت کے ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا گراف بلند کرنا تھا۔