محققین نے تبت کے مختلف علاقوں میں ایسے 1700 وائرس دریافت کیے ہیں جو وہاں سیکڑوں یا ہزاروں سال سے برف میں دبے ہوئے تھے۔
ان بیکٹیریا اور وائرسز کے بارے میں تحقیق سے دنیا کے ماحول کی تاریخ سمجھنے میں بھی مدد ملے گی اور یہ بھی سمجھا جاسکے گا کہ جدید وائرس مستقبل میں ماحول کی حدت کا سامنا کس طور کرسکیں گے۔
تبت کے شمال مغربی حصے کی سطحِ مرتفع پر واقع دی گُلیا گلیشیر سمندر کی سطح سے 20 ہزار فٹ بلند ہے۔ یہ گلیشیر ایک زمانے سے ماحول سے متعلق تحقیق کا اہم میدان رہا ہے۔
معروف جریدے نیچر جیو سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق گلیا گلیشیر میں ہزاروں سال سے محفوظ ڈی این اے کے نمونوں کا خزانہ دریافت ہوا ہے۔ اس سے زمین کے ماحول کو سمجھنے کے لیے درکار بصیرت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔
امریکا کی دی اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے وائرس کی ایسی 1700 انواع دریافت کی ہیں جن میں تین چوتھائی کا سائنس کی دنیا والوں کو پہلے کچھ علم ہی نہیں تھا۔
برف کی تہوں کے تجزیے کی مدد سے سائنس دانوں نے وائرس کے ڈی این اے کے فریگمنٹس دوبارہ تیار کیے ہیں۔ یہ تحقیق 41 ہزار سال کے دوران ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق بہت کچھ بتاتی ہے۔
نیچر جیو سائنسز میں شائع ہونے والے مقالے کے کلیدی مصنف ژھی پِنگ ژھونگ کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے ایسا بہت کچھ معلوم ہوا ہے جو اب تک سائنس والوں کی نظر چھپا ہوا تھا۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ قدیم وائرس جو بیشتر معاملات میں انسانوں کے لیے بے ضرر تھے، ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔
محققین کو جراثیم کا ایک ایسا گروہ ملا ہے جو کم و بیش گیارہ ہزار سال پرانا ہے۔ اس کے مطالعے سے جراثیم کی ”برادریوں“ اور ماحول کی تبدیلی کے تعلق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
پھلوں اور سبزیوں سے مٹی اور جراثیم دور کرنے کے 5 طریقے
محققین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ گلیا گلیشیر میں بہت سے وائرس یا جراثیم دیگر خطوں کے جراثیم سے مماثل تھے۔ اس سے ماہرین کو یہ اندازہ لگانے میں بھی مدد ملی ہے کہ جراثیم طویل فاصلے بھی طے کرسکتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں :