پاکستانی سے تعلق رکھنے والے جوزف پریرا بھارت میں شہریت کے نئے قانون کے تحت ریاست گوا کی شہریت پانے والے پہلے باشندے بن گئے ہیں۔
78 سالہ جوزف فرانسس پریرا تعلیم کے لیے بہت چھوٹی عمر میں گوا سے پاکستان آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے تھے۔ انہوں نے تعلیم مکمل کرنے بعد پاکستان میں ملازمت کی اور شہریت بھی حاصل کی۔
2013 میں وہ بھارت چلے گئے تھے تاہم اُنہیں شہریت اب دی گئی ہے۔ انہوں نے گوا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے شادی کی تھی۔
گوا کے وزیرِاعلیٰ پرمود ساونت نے بدھ کو ایک تقریب میں جوزف فرانسس پریرا کو بھارتی شہریت کا سرٹیفکیٹ دیا۔ نئے بھارتی قانونِ شہریت کے تحت شہریت پانے والے وہ ساحلی ریاست گوا کے پہلے باشندے ہیں۔
مودی سرکار نے 2019 میں شہریت کا متنازع ترمیم شدہ قانون منظور اور نافذ کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 کو یا اِس قبل پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت آکر آباد ہونے والے ہندو، سکھ، جین، پارسی، بدھسٹ یا مسیحی باشندوں کو شہرت دی جاسکتی ہے۔ یہ قانون پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان کو بدنام کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ مودی سرکار نے کہا تھا کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جن افراد کو ان تینوں اسلامی ممالک میں مظالم کا سامنا ہے وہ بھارت کی شہریت حاصل کرنے کے اہل ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کی شہریت بھی خطرے میں
1946 میں پیدا ہونے والے جوزف فرانسس پریرا نے گوا کی ماریہ سے شادی کی تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ 11 ستمبر 2013 کو بھارت چلے گئے تھے۔ گوا کے محکمہ داخلہ نے ریاست میں بسے ہوئے ایسے ہی دوسرے بہت سے افراد کو بھی شہریت دینے کے انتظامات کیے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ متنازع قانون کیخلاف 200 سے زائد درخواستوں پر آج سماعت کرے گی
شہریت کے متنازع قانون پر اسدالدین اویسی بھارتی سپریم کورٹ پہنچ گئے