پی ٹی آئی جلسے کا این او سی معطل کرنے پر توہینِ عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں، بلوچستان میں جو ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے۔
توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی، پی ٹی آئی کی نمائندگی شعیب شاہین نے کی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا ہمیں جلسے کی اجازت دی گئی اور پھرآخری دن این اوسی معطل کیا گیا، انتظامیہ نے 22 اگست کوجلسے کی اجازت کا بیان حلفی عدالت میں دیا تھا۔
چیف جسٹس عامر فاروق کا ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آخری رات ہی این او سی معطل کرنے کاکیوں بتاتے ہیں؟ یہ لوگ ایک پارٹی کے سپورٹرہیں لیکن پہلے انسان اورپاکستانی ہیں۔
پی ٹی آئی نے جلسہ منسوخ کرنے کی پیشکش کی اسی لیے عمران سے ملاقات کی سہولتکاری کی گئی، خواجہ آصف
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ انتظامیہ آخری وقت پرجا کرجلسے کا این او سی کیوں معطل کرتی ہے؟ لوگ دوردرازعلاقوں سے چل چکے ہوتے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے جلسہ معطل ہوگیا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے بتا دیا کریں کہ سیکیورٹی خدشات ہیں اجازت نہیں دے سکتے، یہ پہلے بتائیں جوبھی بیس پچیس ہزارلوگ آنے ہوتے ہیں اُن کی جان کو خطرہ ہے، وہ وہ کوئی بےحس لوگ تونہیں کہ انہوں نے پھربھی اپنے لوگوں کوخطرے میں ڈالنا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کا شکریہ کہ انہوں نے جلسہ ملتوی کردیا، ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کوجلسے کی اگلی اجازت بھی دیدی ہے۔
پی ٹی آئی کا جلسہ منسوخ ہونے پر علیمہ خان پارٹی قیادت پر پھٹ پڑیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا اسلام آباد بند ہے کنٹینرزہی کنٹینرزہیں، وجہ کیا ہے؟ صرف ایک مارگلہ روڈکھلا ہے اوروہاں بھی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں، گاڑیوں کی آدھے پونے گھنٹے کی لمبی لائن ہوتی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ محرم ہوگیا، ختم نبوت والے آگئے، اب آگے کیا ہونا ہے وہ بھی بتا دیں، کیا اچھا لگے گا کہ میں کمشنر کوبلا کرشوکاز نوٹس جاری کروں۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 10 ستمبرتک ملتوی کردی۔
پی ٹی آئی کے اسلام آباد جلسہ کی اجازت منسوخ کرنے کے بعد پنجاب میں دفعہ 144 نافذ