بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت ’جماعت اسلامی‘ پر سے پابندی ہٹا دی۔
واضح رہے کہ پابندی شیخ حسینہ کی حکومت کے آخری دنوں میں لگائی گئی تھی۔ عبوری حکومت کے حکم نامے کے مطابق حکومت یکم اگست دو ہزار چوبیس کے سابقہ حکم کو منسوخ کرتی ہے۔
بھارت فرار ہونے والی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ حالیہ نے رواں برس 31 جولائی کو طلبہ تحریک کے دوران پُرتشدد ہنگاموں میں کلیدی کردار اد اکرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش اور اُس کے اسٹوڈنٹ ونگ اسلامی چھاترو شِبِر پر پابندی عائد کردی تھی۔
بنگلہ دیش کے نئے حکام نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت میں سیکورٹی فورسز کے ذریعے جبری گمشدگیوں کے سینکڑوں واقعات کی تحقیقات کا آغاز کیا کردیا۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کے دور اقتدار میں بدنام زمانہ ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) نیم فوجی دستہ تھا جس پر متعدد حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے اور امریکا نے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی بنیاد پر نیم فوجی دستہ پر پابندی لگائی تھی۔ ۔
ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ 2009 میں حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ”600 سے زائد جبری گمشدگیاں“ کی ہیں اور تقریباً 100 لاپتا ہیں۔
حراست میں لیے گئے افراد میں سے اکثر کا تعلق حسینہ کی حریفوں، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت جماعت اسلامی سے تھا۔
حسینہ واجد کی حکومت نے ان الزامات کی مسلسل تردید کی اور دعویٰ کیا کہ لاپتا ہونے والوں میں سے کچھ یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران بحیرہ روم میں ڈوب گئے تھے۔
ایک حکومتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج معین الاسلام چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) سمیت دیگر نیم فوجی پولیس یونٹوں کی بھی تحقیقات کرے گی۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ RAB اور BGB دونوں فورسز کے پاس ”انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ریکارڈ ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں اور تشدد اور ناروا سلوک شامل ہیں“۔
نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کی جانب سے کام شروع کرنے کا حکم دینے والے کمیشن کے پاس اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے 45 کام کے دن ہیں۔