الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں سپریم کورٹ کی وضاحت آنے تک مقدمے کو زیر التوا رکھنے کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات کیس کی سماعت ہوئی، بیرسٹر گوہر اور ایڈووکیٹ عائشہ خالد الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے وکیل عذیر بھنڈاری بھی حاضر ہوئے۔
وکیل پی ٹی آئی عذیر بھنڈاری نے مؤقف کہ ایف آئی اے نے چھاپا مار کر ہمارا تمام ریکارڈ ضبط کر لیا، ہم نے 4 درخواستیں دائر کروائی ہیں، ہمارے پاس اصل دستاویزات اور الیکٹرانک ریکارڈ بھی موجود نہیں۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ آپ نے ویڈیو دیکھی ہے، یہ ہمارا واٹر ڈسپینسر بھی لے گئے، جس پر وکیل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن ہدایت دے تو ریکارڈ ایف آئی اے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سوالنامہ بھیجا تھا، پہلا سوال تھا کہ تحریک انصاف کی اب کیا حیثیت ہے، اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق شارٹ آرڈر میں آ گیا ہے، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
انٹرا پارٹی انتخابات کیس: پی ٹی آئی کو دستاویزات جمع کروانے کیلئے مہلت مل گئی
ممبر الیکشن کمیشن خیبرپختوا نے کہا کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ تحریک انصاف رجسٹرڈ سیاسی جماعت نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر لیا جائے تو اس بات کی وضاحت ہو جائے گی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ سے وضاحت مانگی ہے، اس درخواست میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف کا کوئی انتظامی ڈھانچہ نہیں ہے لیکن ہم الیکشن کمیشن کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔
اس پر ممبر کمیشن خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ ہم نے تحریک انصاف کے نئے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ میں کوئی گزارش نہیں کی، ہم نے سپریم کورٹ سے پوچھا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم ہونے تک پارٹی سرٹیفکیٹ کس کے تسلیم کیے جائیں؟
بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ آپ نے جن 39 ارکان کو پی ٹی آئی کا تسلیم کیا انہیں بھی سرٹیفکیٹ میں نے جاری کیے۔
ممبر خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہم نے آپ کے دستخط کے باعث 39 ارکان کے سرٹیفکیٹ تسلیم نہیں کیے، سپریم کورٹ کے حکم پر کیے، اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے سامنے ہے، سیاسی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست ہیں یا نہیں؟ اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نہیں کرسکتا۔
اس پر ممبر کمیشن سندھ نے دریافت کیا کہ آپ اب چاہتے کیا ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کی وضاحت یا تفصیلی فیصلہ آنے تک الیکشن کمیشن اس کیس کی سماعت نہ کرے۔
بعد ازاں تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا۔
وکیل عذیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی جانچ پڑتال الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، الیکشن کمیشن صرف یہ دیکھ سکتا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے یا نہیں، الیکشن کمیشن پہلے دائرہ اختیار کا فیصلہ کرے۔
اس پر ڈی جی لا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے شارٹ آرڈر میں کہا تھا کہ صرف 41 آزاد ارکان کے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کروائے جائیں، سپریم کورٹ نے کسی مخصوص جماعت کا ذکر نہیں کیا تھا، آزاد رکن کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے یہ وضاحت مانگی ہے کہ 41 ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے کس کا سرٹیفکیٹ تسلیم کیا جائے؟
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات پر 7 اعتراضات عائد کردیے
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے دائرہ اختیار اور سپریم کورٹ کی وضاحت آنے تک کیس کو زیر التوا رکھنے کی تحریک انصاف کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس کی سماعت 18ستمبر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 23 جولائی کو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دستاویزات جمع کروانے کے لیے مہلت دے دی تھی۔
13 جولائی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے 9 جون 2022 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے تھے جس کیس کو الیکشن کمیشن نے تقریباً ڈیڑھ سال تک گھسیٹنے کے بعد نومبر 2023 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
23 نومبر 2023 کو جاری حکم میں الیکشن کمیشن نے سابق حکمران جماعت کو اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم نہیں ہونے کے لیے نئے انتخابات کروانے کے لیے 20 دن کا وقت دیا۔
الیکشن کمیشن کا حکم ایک ایسے وقت میں آیا جب عام انتخابات میں تقریباً دو ماہ باقی تھے اور سیاسی جماعتیں ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم تیزی سے چلا رہی تھیں۔
اپنے مشہور انتخابی نشان کو برقرار رکھنے کے لیے بے چین پی ٹی آئی نے 10 دن سے بھی کم وقت لیا اور 2 دسمبر 2023 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے۔
22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دوسری بار پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد ایک سیاسی جماعت کے اندرونی کام کی نوعیت کا پہلا خوردبینی جائزہ لیا گیا اور اسے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے وفاقی الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کر سکتے تھے۔
کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کرنا پڑا۔
تاہم الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر انتخابی مشق پر اعتراضات اٹھائے اور اعتراضات کی تفصیلات بتائے بغیر ہی معاملہ سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
پی ٹی آئی کے اعتراضات پر کمیشن نے بالآخر ان کے ساتھ ایک سوالنامہ شیئر کیا جس میں پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں اور تنظیمی ڈھانچہ اور انتخابی نشان کھونے کے بعد پارٹی کی حیثیت پر سوال اٹھایا گیا۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پوچھے گئے 7 سوالات کے تفصیلی جواب جمع کرائے تھے، جس میں الیکشن باڈی پر زور دیا گیا تھا کہ وہ تازہ ترین انٹرا پارٹی انتخابات کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے، پارٹی کے وفاقی چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی ایک موجودہ اور فعال سیاسی جماعت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 202 کے تحت الیکشن کمیشن میں درج ہے۔
انہوں نے جواب میں الیکشن کمیشن کے تحفظات دور کرنے کے لیے کہا کہ الیکشن ایکٹ، 2017، یا الیکشن رولز، 2017 میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ ایک اندراج شدہ پارٹی پانچ سال کی میعاد ختم ہونے کے بعد اپنے ’تنظیمی ڈھانچے‘ سے محروم ہو جائے گی اگر پانچ سال کے اندر کوئی انٹرا پارٹی الیکشن منعقد نہیں ہوتا ہے تو، تاہم اس میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے اپنا انٹرا پارٹی انتخاب 9 جون 2022 کو منعقد کیا، لیکن الیکشن کمیشن نے 23 نومبر 2023 کو ہدایت کی کہ انٹرا پارٹی پی ٹی آئی کے ’مروجہ آئین‘ (2019 کے آئین) کے تحت منعقد ہونا چاہیے۔
اور ان انتخابات کے انعقاد کے لیے پاکستان میں پی ٹی آئی کے تمام اراکین پر مشتمل پی ٹی آئی کی جنرل باڈی کا اجلاس 31 جنوری کو بلایا گیا، جنرل باڈی سے مطلوبہ منظوری لی گئی، جس کے تحت ایف ای سی کو بھی جلد از جلد انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے مقرر کیا گیا، اس کے بعد پی ٹی آئی نے 21 فروری کو ای سی پی کو جنرل باڈی کی منظوریوں کی روشنی میں انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے کیے گئے تمام اقدامات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 2 مارچ کو ان اقدامات کی توثیق کی اور پارٹی کو پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کو آگے بڑھانے اور منعقد کرنے کی ہدایت کی، اس کے مطابق انٹرا پارٹی 3 مارچ کو منعقد ہوا اور دستاویزات کمیشن کے پاس جمع کرائی گئیں، لہٰذا، پی ٹی آئی آج تک ایک اندراج شدہ سیاسی جماعت ہے اور اس طرح وہ آئین کے آرٹیکل 17، الیکشنز ایکٹ، 2017، اور الیکشن رولز، 2017 سمیت قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت اپنے حقوق کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرنا پڑا تھا۔