بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوں کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گردوں نے نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا۔ تشدد کے اندھا دھند استعمال کے ذریعے نرم اہداف کو نشانہ بنانے کی یہ حکمت عملی جنگی اور انسانی حقوق کے قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ رات کئے گئے حملوں کا سلسلہ درحقیقت ان عناصر کی مایوسی کا مظہر ہے کیونکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گرد پاکستان اور بلوچستان کے عوام اور علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کے دشمن ہیں۔ جو یقیناً دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایماء پر کام کر رہے ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تمام مقامات پر فوراً اور مؤثر ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے اور دشمنوں کو بھاری نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ریاست اور حکومت پاکستان ایسے بزدلانہ حملوں کی وجہ سے کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیں گے اور پاکستان اور پاکستانی عوام کے دفاع میں کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔
کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں مارا، دہشت گردوں کا کوئی قوم اور قبیلہ نہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان
پچیس اور چھبیس اگست کی رات بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بی ایل اے نے متعدد حملے کر کے متعدد معصوم پاکستانی شہریوں کو شہید کیا، لیکن تقریباً 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی اب تک ماہ رنگ بلوچ، بلوچ یکجہتی کمیٹی، سمی بلوچ اور ان کے شر پسند ہرکارے جو پچھلے کچھ عرصے سے بلوچستان کے امن او عامہ کو تباہ کرنے پر لگے ہُوئے ہیں، انہوں نے ان حملوں کی نہ مذمت کی ہے اور نہ معصوم لوگوں کے مارے جانے پر افسوس کیا، اِسی طرح ان کی سپورٹ میں لبرل بریگیڈ کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ بی ایل اے کے دہشت گرد، ماہرنگ بلوچ، بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے اِس مرض کی بالکل ٹھیک نشان دہی کی تھی جب انہیں دہشت گردوں کی پراکسی کہا تھا۔ ریاست کو فوری طور پر ماہ رنگ بلوچ، بلوچ یکجہتی کے ہرکاروں کے خلاف معصوم لوگوں کو شہید کروانے میں سہولتکاری کرنے پر اِن کے خلاف ایف آئی آر درج کروانی ہوگی اور اِن عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لائے بغیر معصوم پاکستانیوں کو انصاف نہیں مل سکتا جن کا نا حق خون بلوچستان میں بہا ہے۔ ریاست کو اب سخت فیصلے کرنے ہونگے۔