پاکستانی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ رات بلوچستان میں دہشتگردوں کی متعدد کارروائیوں کو ناکام بنایا، اس دوران 21 دہشتگرد ہلاک ہوئے اور سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 14 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی اسی پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 25 اور 26 اگست 2024 کی درمیانی شب ’دہشت گردوں نے بلوچستان میں متعدد گھناؤنی کارروائیاں کرنے کی کوشش کی‘۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دشمن قوتوں کی ایماء پر کی گئی دہشت گردی کی ان بزدلانہ کارروائیوں کا مقصد خاص طور پر موسیٰ خیل، قلات اور لیبیلہ اضلاع میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا تھا۔ جس کے نتیجے میں بے شمار بے گناہ شہریوں نے شہادت قبول کی۔
ترجمان پاک فوج نے بیان میں بتایا کہ ضلع موسیٰ خیل میں دہشت گردوں نے جنرل ایریا راڑہ شام میں ایک بس کو روکا اور بلوچستان میں روزی روٹی کمانے کے لیے کام کرنے والے معصوم شہریوں کو بدنیتی سے نشانہ بنایا۔
بیان کے مطابق سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو کامیابی کے ساتھ ناکام بنا دیا اور کلیئرنس آپریشنز، مقامی آبادی کی حفاظت اور تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے 21 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔
تاہم آپریشن کے دوران پاک فوج کے 10 جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چار اہلکاروں سمیت مٹی کے 14 بہادر بیٹوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے لازوال قربانی دی اور شہادت کو گلے لگا لیا۔
گوادر پورٹ کو فعال بنانے کیلئے حکومت کا بڑا فیصلہ
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردوں کے ساتھ مردانہ وار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش پانے والے سیکورٹی اہلکاروں کی نماز جنازہ ایف سی ہیڈکوارٹرز کوئٹہ میں ادا کردی گئی ہے، نماز جنازہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، کمانڈر بلوچستان کور، آئی جی ایف سی بلوچستان (نارتھ)، آئی جی پولیس بلوچستان و دیگر سول و ملٹری حکام نے شرکت کی۔
نماز جنازہ کے بعد شہداء کے جسد خاکی اپنے آبائی علاقوں میں روانہ کردیے گئے ہیں، جہاں شہداء کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سینی ٹائزیشن آپریشنز کیے جا رہے ہیں، معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے والوں، ان گھناؤنی اور بزدلانہ کارروائیوں کے لیے اکسانے والوں، مجرموں، سہولت کاروں اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قوم کے شانہ بشانہ بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
گزشتہ رات دہشتگردوں کی جانب سے متعدد کارروائیاں کی گئیں، جن میں کئی معصوم لوگ مارے گئے۔
موسٰی خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر ٹرکوں اور مسافر بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد 23 مسافروں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ ایس ایس پی موسیٰ خیل کے مطابق مسلح افراد نے فرار ہونے سے قبل 10 سے زائد گاڑیوں کو بھی آگ لگا کر نذر آتش کردیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھایا، 2 سے 3 جگہوں پر حملہ کیا۔
راڑہ شم کے مقام پر مسلح افراد نے نیشنل ہائی وے پر ناکہ لگایا اور کوئٹہ سے پنجاب کے شہر فیصل آباد جانے والی ڈائیوو بس سے 6 مسافروں کو اتار کر اغوا کرکے لے گئے اور 2 مسافر پک اپ سے تلاشی کے دوران اتار کرلے گئے۔ مسافر عبدالشکور نے بتایا کہ اغوا کیے گئے مسافروں کا تعلق پنجاب سے ہے۔
واضح رہے کہ ضلع موسیٰ خیل بلوچستان کی شمال مشرقی سرحد پر واقع ہے جو خیبر پختونخوا اور پنجاب سے متصل ہے۔
دہشتگردوں نے قلات میں بھی لیویز کی گاڑی پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پانچ اہلکار شہید ہوئے، جن کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ہے۔
بلوچستان کے علاقے بولان میں نامعلوم افراد نے کولپور اور مچھ کے درمیان ریلوے پل کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کردیا، جس کے باعث صوبے بھر سے ریل رابطہ منقطع ہوگیا۔
بولان سے ہی 6 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ ایس ایس پی کچھی کیپٹن دوست محمد بگٹی نے بتایا کہ 2 لاشیں تباہ شدہ پل کے نیچے دبی ہوئی تھیں جبکہ 4 لاشیں قومی شاہراہ سے کولپور کے مقام پر ملی ہیں۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، حملہ آور ناراض بلوچ نہیں، دہشت گرد ہیں، ان دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔
محسن نقوی نے کہا کہ فورسز نے دہشت گردوں کےعزائم خاک میں ملائے، دہشت گردوں کوان ہی کی زبان میں جواب دیں گے، ان دہشت گردوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ناراض بلوچوں کو منائیں گے اور ان سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں،بہت سارے بیرونی عناصر بلوچستان میں ملوث ہیں،بلوچستان میں ہونے والے واقعات پلاننگ سے ہوئے ہیں، بلوچستان کے حالات میں جو ملوث ہیں وہ دہشت گرد ہیں، انٹیلی جنس اداروں کی ان واقعات کی روک تھام میں ناکامی نہیں۔