عرب میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کو جنگ بندی کے حوالے سے اپنی ہی مذاکرات کاروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔
عرب خبر رساں ادارے ”العریبیہ“ کے مطابق نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع نام نہاد فلاڈیلفیا راہداری خالی نہیں کرے گا، جبکہ اسرائیلی مذاکرات کاروں کا نکتہ نظر مختلف ہے۔
مصری سرحد کے برابر میں واقع فلاڈیلفیا راہداری اور غزہ کی پٹی کے وسط سے گزرنے والی نیتسارم راہداری مصر، قطر اور امریکہ کی حمایت یافتہ بات چیت میں دو اہم اختلافی نکات رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے بارہا اصرار کیا ہے کہ اسرائیل فلاڈیلفیا راہداری کا کنٹرول نہیں چھوڑے گا کیونکہ وہ مصر کے ساتھ سرحد کے پار سے حماس کو ہتھیاروں اور مزاحمت کاروں کی مبینہ اسمگلنگ کو روکنا چاہتا ہے۔
اسرائیل ایک سال میں ختم ہوجائے گا، سابق اسرائیلی میجر کی پیش گوئی
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے سے شمال کی طرف بڑھنے والے حماس کے مسلح مزاحمت کاروں کو روکنے کے لیے نیتسارم راہداری میں چوکیاں قائم کرنا ہوں گی۔
تاہم، عرب میڈیا کو خبر دینے والے شخص نے بتایا کہ نیتن یاہو نے فلاڈیلفیا کی ایک پوزیشن کو چند سو میٹر تک منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن وہ راہداری کا مجموعی کنٹرول برقرار رکھیں گے حالانکہ ان کی اپنی ہی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے مزید مراعات کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔
مذاکرات کے بارے میں قریبی علم رکھنے والے اس شخص نے کہا، ’وزیرِ اعظم کا اصرار ہے کہ یہ صورتِ حال جاری رہے گی، مذاکراتی ٹیم کے بعض عناصر کے دباؤ کے برعکس جو وہاں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔‘
اسرائیلی ٹی وی“چینل 12“ نے رواں ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ نیتن یاہو نے موساد انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا کے زیرِ قیادت مذاکراتی ٹیم پر سخت تنقید کی تھی کہ وہ بہت زیادہ رعایتیں دینے پر آمادہ ہو گئی ہے۔
غزہ جنگ کا یہ 11واں مہینہ ہے اور امریکہ اسرائیل پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
معاہدے تک پہنچنے کے لیے نیتن یاہو پر غزہ میں باقی رہ جانے والے بعض اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں کا شدید دباؤ ہے اور کئی لوگوں نے معاہدہ طے ہونے میں ناکامی پر سخت تنقید کی ہے۔
یوکرین کا روسی دارالحکومت پر اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ
یرغمالیوں کے خاندان ان ناقدین میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے نیتن یاہو پر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔
لیکن کسی بھی رعایت کے خلاف ان کی اپنی کابینہ کے سخت گیر افراد کے دباؤ اور رائے عامہ کے جائزوں کی بنا پر وزیرِ اعظم نے بارہا کہا ہے کہ ان کا مقصد حماس پر مکمل فتح حاصل کرنا ہے۔
مذکورہ جائزوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جنگ کے آغاز میں ان کی تباہ کن درجہ بندی میں اضافہ ہوا ہے۔