کچہ میں جاری ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں کئی نقائص سامنے آئے ہیں، جس سے آپریشن کو بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق پولیس نے اہم ڈاکوؤں کی ہلاکت پر ردعمل کا پہلو نظرانداز کیا، موجودہ پولیس کمان نے کچے میں بھرپور آپریشن کا دعویٰ کیا، لیکن گینگ کے کارندوں کی ہلاکت پر ردعمل کا تعین نہیں کرسکی۔
سانحہ کچہ ماچھکہ، پولیس پر حملے کے مرکزی ملزم کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
پولیس نے فاروق شر، نذیر شر، حاکم شر اور عالم شر کو مارنے کا دعویٰ کیا، گزشتہ برس شہزادہ دشتی، جانو اندھڑ سمیت پانچ ڈاکوؤں کو مارنے کا دعویٰ کیا گیا، ڈاکوؤں کی ہلاکت پر مذکورہ گینگز کی جانب سے تھریٹ موجود تھا۔
ذرائع کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس آرپی جی سیون لانچر اور اینٹی ائیر کرافٹ گنز موجود ہیں، کچے کے ڈاکو ہینڈ گرنیڈز اور مشین گن جیسے جدید اسلحے سے لیس ہیں، پولیس کو بھی ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ موجود ہونے کا علم تھا، ڈاکوؤں کے برعکس پولیس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں ہے۔
کچے کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے تک مقرر
پولیس ذرائع کے مطابق پنجاب کانسٹیبلری کے انجان اہلکار جدید اسلحے کے بغیر شہزادہ دستی کے علاقے میں تھے، پولیس پارٹی پر حملہ بستی کوش کے قریب ہی کیا گیا۔
رحیم یار خان: کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے پولیس قافلے پر حملے میں 12 پولیس اہلکار شہید
پولیس ذرائع کے مطابق انتہائی حساس حالات کے باوجود اہلکاروں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی نہیں لگائی گئی، کچہ میں تعینات اہلکار سوشل میڈیا پر اپنی لوکیشن اور اسلحہ کی عدم فراہمی پر پوسٹ کرتے رہے، ڈاکوؤں کو پولیس اہلکاروں کی سوشل میڈیا پوسٹ سے لوکیشن اور غیر معیاری اسلحہ کا علم ہوا۔