تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ انھیں 22 اگست کو دینی جماعتوں کے احتجاج کے بارے میں علم ہوا تو انتشار پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے انھوں نے جلسہ ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ جلسے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف نے زبردستی جلسے کرنے کی ٹھانی لی تھی جس کی پیش نظر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے ریڈ زون سیل کرتے ہوئے سرکاری اور نجی اسکولوں میں 22 اگست کو تعطیل کا اعلان کردیا تھا۔ بعدازاں پی ٹی آئی نے جلسے کی آڑ میں ’حکومت کی جانب سے انتشار پھیلانے‘ کی سازش کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے جلسہ ملتوی کردیا تھا۔
اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ’مجھے معلومات دیں گئی تھی کہ ختم نبوت کا معاملہ ہے اور دینی جماعتیں احتجاج پر ہیں، انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے اسی لیے اعظم سواتی اور بیرسٹر گوہر کو بلا کر ملاقات کی اور جلسہ ملتوی کرنے کی ہدایت کی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ آٹھ ستمبر کا این او سی بی جاری کیا ہے اور اگر آٹھ ستمبر کو کسی نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔
خدشہ تھا کہ ایک اور نیا نو مئی بنا کر پی ٹی آئی کے گلے میں ڈال دیا جاتا
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا اگر جلسہ کرتے تو’خدشہ تھا کہ ایک اور نیا نو مئی بنا کر پی ٹی آئی کے گلے میں ڈال دیا جاتا جبکہ ابھی تک پہلے والے نو مئی کی جوڈیشل انکوائری بھی نہیں کروائی گئی’۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا جلسہ ملتوی کیے جانے کی اصل وجہ سامنے آگئی
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ ابھی تک پہلے والے 9 مئی کی جوڈیشل انکوائری بھی نہیں کروائی گئی، اب اگر آپ نے اجازت دی ہے اور کل جلسہ روکنے کی کوشش کی تو سب کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی ، اب عدالت کی ساکھ کا سوال ہے، عدالت ہمیں اجازت دیتی ہے لیکن انتظامیہ کینسل کر دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ملٹری کا مسئلہ ہے نہ ہی سیکرٹ انٹرنیشنل ایشو ہے، اگر حمود الرحمن رپورٹ پر عمل ہوتا تو آج ملک میں جمہوریت ہوتی، اوپن ٹرائل سے ملک کا وہی فائدہ ہوگا جو حمود الرحمن رپورٹ پر عمل درآمد کرنے سے ہوتا، حمود الرحمن رپورٹ پر عمل درآمد ہوتا تو ملک میں 3 مارشل لا نہ لگتے اور نہ ہی آج غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہوتا، 9 مئی جمہوریت کے اوپر حملہ ہے، کمیشن کا مطالبہ اس لیے کر رہا ہوں کہ آئندہ کوئی ایسی غلطی نہ دہرائے۔
ایک صحافی نے مزید استفسار کیا کہ رات کے پچھلے پہر آپ نے اعظم سواتی کو پیغام کس کے ذریعے بھجوایا؟ پیغام رساں کون تھا؟ فون کی سہولت کیسے ملی؟ اس پر عمران خان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب رہنے دیں۔