بھارت میں مسلمانوں سے نفرت پھیلانے اور اُنہیں زیادہ سے زیادہ متنازع بنانے کی کوششیں دم نہیں توڑ رہیں۔ مودی سرکار کے دور میں ایسا بہت کچھ ہوا ہے جس نے معاملات کو انتہائی سطح پر پہنچایا ہے۔ بھارت بھر میں مسلمانوں کے خلاف محاذ کھڑے کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
آسام کی حکومت نے چند برس قبل شہریت متعلق متنازع قانون کے ذریعے بھی مسلمانوں کی مشکلات بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ اب ایک اور متنازع قانون کے ذریعے مسلمانوں کا ناک میں دم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
آسام کے وزیرِاعلیٰ ہیمنتا بسوا شرما نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ ریاستی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جارہا ہے جس کا مقصد علما (قاضیوں) کو نکاح کی رجسٹریشن سے روکنا ہے۔ نکاح کوئی بھی پڑھاسکتا ہے تاہم اُس کی رجسٹریشن صرف وہی قاضی کرسکتے ہیں جنہیں حکومت نے اس کام کی باضابطہ اجازت یا منظوری دی ہو۔ گزیٹیڈ قاضی نکاح کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ اب اُنہیں پابند کیا جارہا ہے کہ تمام شادیوں کی رجسٹریشن نہ کریں۔
آسام کے وزیرِاعلیٰ نے یہ صراحت نہیں کی کہ آخر ایسی کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ حکومت کے اجازت یافتہ قاضیوں کو نکاح کی رجسٹریشن سے روکنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ بھارت کے بیشتر مسلمان نوجوانی میں شادی کرتے ہیں۔ لڑکیاں بھی نکاح کی سرکاری اجازت یافتہ عمر تک پہنچتے ہی شادی کرلیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں میں شرحِ پیدائش زیادہ ہے۔
بھارت کی بیشتر ریاستی حکومتیں مسلمانوں میں شرحِ آبادی کم کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ اقدامات کرتی رہتی ہیں اور عدلیہ اُن اقدامات کی دُھول اڑاتی رہتی ہیں۔ آسام کی حکومت بھی مسلمانوں کو دبوچ کر رکھنے کے حوالے سے بے عقلی پر مبنی اقدامات کے حوالے سے خاصی ”معروف“ ہے۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ انتہا پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت جن جن ریاستوں میں ہے وہاں مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے پر خاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ اتر پردیش کی حکومت اس معاملے میں پیش پیش رہتی ہے۔ گجرات اور چند دیگر ریاستیں بھی مسلمانوں کے لیے امتیازی نوعیت کے اقدامات کے معاملے میں ”قائدانہ“ کردار کی حامل ہیں۔