Aaj Logo

شائع 21 اگست 2024 07:00pm

کولکتہ کی لیڈی ڈاکٹر کے مبینہ قاتل کی ساس نے اصلیت بیان کردی

بھارت کے شہر کولکتہ میں 31 سالہ جونیر ڈاکٹر کو زیادتی کے بعد بہیمانہ انداز سے قتل کرنے والے سنجے رائے کے بارے میں اُس کی ساس نے بتایا ہے کہ اُس نے دو سال قبل میری بیٹی سے دوسری شادی کی تھی۔ وہ اپنی بیوی کو بُری طرح مارا پیٹا کرتا تھا۔ اُس کے تشدد سے بیوی کا حمل بھی ضائع ہوا۔

سنجے رائے کی ساس نے پولیس کو بتایا کہ وہ گھریلو اخراجات کے پیسے بھی نہیں دیتا تھا۔ دن رات مار پیٹ کے باعث اُس کی بیٹی شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیمار پڑگئی تھی۔

خاتون نے مطالبہ کیا ہے کہ اُن کے داماد کو پھانسی دی جائے تاہم اُس کے جرم میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے والے تمام افراد کو سزا ملنی چاہیے۔ خاتون کا دعوٰی ہے کہ سنجے اتنا بڑا اور بھیانک جرم تنہا نہیں کرسکتا۔ اس نے ضرورت کسی نہ کسی سے مدد لی ہوگی۔

تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا ہے کہ سنجے رائے کی کئی شادیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ وہ شراب کا رسیا ہے اور اُس کا سیل فون فحش مواد سے بھرا ہوا ہے۔

کولکتہ کی جونیر ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل نے بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کرلی ہے۔ کم و بیش پندرہ دن سے شدید احتجاج کیا جارہا ہے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔

کولکتہ کے اس واقعے کو ملک گیر تحریک میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ حقوقِ نسواں کی کئی تنظیمیں بھی میدان میں آچکی ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیرِاعلیٰ ممتا بینرجی کہہ چکی ہیں کہ ضروری ہوا تو اس کیس کے مجرم کو پھانسی بھی دی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود احتجاج کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

واضح رہے کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے اور اس قتل کو مودی سرکار یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی ممتا بینرجی کے خلاف تحریک میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ حالات خراب کرکے ریاستی حکومت گرائی جاسکے۔

مقتول جونیر ڈاکٹر کی پوسٹنگ کولکتہ کے آر جے کار میڈیکل کالج اسپتال میں تھی۔ اس کالج کے سابق پرنسپل سُدیپ گھوش کو بھی تفتیش کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ لیڈی ڈاکٹر کے قتل پر احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کالج میں کوئی ریکٹ ہے جو اس قسم کے واقعات کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ سُدیپ گھوش سے تفتیش کے بعد جب کسی بھی غلط کام میں اُن کا کردار ثابت نہ ہوسکا تو یہ کہا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو مارا پیٹا کرتے تھے اور اُن کے گھر سے اکثر لڑائی جھگڑے کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔

Read Comments