امریکا نے چین، روس اور شمالی کوریا کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر اپنی ایٹمی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔ نئی حکمتِ عملی ترتیب دی گئی ہے جو اس حوالے سے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ناگزیر سمجھی جارہی تھی۔
امریکی ایوانِ صدر قومی سلامتی کونسل کے نائب ترجمان سین سیویٹ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ چین اپنے ایٹمی اسلحہ خانے کو مضبوط کر رہا ہے۔ روس بھی اِسی راہ پر گامزن ہے۔ شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں تواتر سے مصروف رہا ہے۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ امریکا بھی ایٹمی اسلحہ خانے کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرے۔
نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ایوانِ صدر کا کہنا ہے کہ ایٹمی حکمتِ عملی سالِ رواں کے اوائل میں ترتیب دی گئی تھی اور اسے صدر جو بائیڈن کی منظوری بھی حاصل ہوچکی ہے۔
واضح رہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین جنگ کے دوران کئی بار ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ روس کو پسپا کرکے دیوار سے لگانے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور کئی نئی ایٹمی قوتیں سامنے آئی ہیں۔ ایسے میں امریکا کے لیے بھی اپنی ایٹمی حکمتِ عملی پر نظرِثانی لازم ہوچکی ہے۔ واضح رہے کہ چین کے پاس اس وقت 500 ایٹمی ہتھیار ہیں اور وہ اس ذخیرے کو ایک ہزار کی حد تک لے جانا چاہتا ہے۔ روس کے پاس چار ہزار سے زائد ایٹمی ہتھیار ہیں۔ شمالی کوریا بھی ایٹمی ہتھیاروں کا ایسا ذخیرہ رکھتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔