ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کی حوالگی سے متعلق بھارتی درخواست پر غور کر سکتی ہے اگر نئی دہلی ان کے خلاف ثبوت فراہم کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ملایشیا کے وزیراعظم ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں اور ان کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات ہوئی۔
خیال رہے کہ 2016 میں ڈاکٹر نائیک کیخلاف تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوا جب ڈھاکا حملے میں ملوث افراد سے متعلق یہ خبریں گردش کرنے لگی کہ حملہ آوروں میں سے چند ذاکر نائیک سے متاثر تھے، جبکہ ذاکرنائیک اوران کی تنظیم کے متعدد ممبران پرممبئی، مہاراشٹرا، سندودرگ اورکیرالا میں مقدمات درج ہیں۔ بعد ازاں مودی سرکار نے محض خبروں کی بنیاد پر معروف اسلامی اسکالر اور مبلغ ذاکر نائیک کی این جی او پر مکمل جبکہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر پانچ سال کی پابندی عائد کردی۔ بعدازاں ڈاکٹر ذاکر نائیک بھارت سے ملائیشیا منقتل ہوگئے۔
انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز میں ایک انٹرایکٹو سیشن کے دوران ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے یہ بھی کہا کہ یہ مسئلہ دونوں ممالک کو دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے سے نہیں روک سکتا۔
بھارتی حکومت کی ذاکر نائیک کی این جی او پر پابندی عائد
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بات چیت کے دوران بھارت کی طرف سے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ اسلامی مبلغ کو مہاتیر محمد کی قیادت میں سابقہ حکومت نے ملائیشیا میں مستقل رہائش دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ “کچھ برس قبل یہ مسئلہ بھارت کی طرف سے نہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے اٹھایا گیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک شخص کی بات نہیں کررہا، میں انتہا پسندی پر مبنی جذبات کی بات کر رہا ہوں، اگر کوئی شواہد کسی فرد، گروہ یا جماعتوں سے منسوب ہیں تو ہماری حکومت “کسی بھی خیالات اور ثبوت’ پیش کرنے کا خیر مقدم کرے گی۔
انور ابراہیم نے کہا کہ ’“دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے… اس پر ہمارا سخت مؤقف ہےاور ہم دہشت گردی کے خلاف بہت سے معاملات پر بھارت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایک معاملہ ہمیں مزید تعاون اور ہمارے دو طرفہ تعاون کو بڑھانے سے روکے گا۔
بھارتی عدالت کا ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم