Aaj Logo

شائع 19 اگست 2024 09:42pm

سکردو کی خوبصورت لیکن پراسرار ’اندھی جھیل‘، جس کے پار کوئی نہیں جاتا

گلگت بلتستان کے علاقے سکردو اور شگر کے سنگم پر موجود سرد صحرا کے قریب ایک ”بلائنڈ لیک“ یا اندھی جھیل واقع ہے۔

یہ جھیل سکردو سے تقریباً پینتالیس منٹ کی مسافت پر اُسی راستے پر واقع ہے، جو دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو کی طرف جاتا ہے۔

چار کلومیٹر پر پھیلی اس خوبصورت جھیل کا شمار بلتستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ جسے بلتی زبان میں ”جربہ ژھو“ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے اندھی جھیل۔

اس جھیل کو اندھی جھیل اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے پانی کا ماخذ کیا ہے؟

بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں واقع اس جھیل کا پانی صاف اور نیلا ہے لیکن یہ پانی مکمل طور پر ٹھہرا ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کئی برسوں سے اس جھیل میں پانی کی سطح ایک جیسی ہی ہے۔

گلگت بلتستان کی تاریخ و حالات پر متعدد کتابیں تحریر کرنے والے سکردو کے ممتاز صحافی قاسم نسیم نے جرمن خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس جھیل سے پانی کے اخراج کا ایک راستہ تو ہے لیکن اس میں پانی آنے کا کوئی بھی ذریعہ معلوم نہیں ہے۔

قاسم نسیم کے مطابق اس جھیل کے اردگرد نہ تو پہاڑوں پر گلیشئیرز ہیں، جن سے پانی آتا ہو اور نہ ہی کوئی ایسی ندی، جھرنا یا آبشار ہے، جو اسے پانی فراہم کرتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس جھیل کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ لیکن یہ صاف اس لیے ہے کیونکہ اس میں سے پانی مسلسل باہر نکلتا رہتا ہے۔

قاسم نسیم نے بتایا کہ ’ہمارے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا اس ندی کے نیچے پانی کے چشمے ہوں گے، جن سے پانی نکلتا ہے لیکن پانی کے یہ ذرائع نظر نہیں آتے۔‘

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس جھیل کے پاس دریائے سندھ اور شگر دریا بہتے ہیں، ان کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو کر اس مقام پر جھیل کی شکل اختیار کر گئی ہو۔

لیکن مقامی لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

مقامی شہری نوشاد کے بقول زیر زمین پانی نکلنے کا واقعہ صرف اس جگہ پر ہی کیوں رونما ہوا ہے اور کسی جگہ کیوں نہیں۔

قاسم نسیم نے بتایا کہ اس علاقے میں جھیل کے حوالے سے عجیب و غریب باتیں مشہور رہی ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ جھیل کے سامنے والے پہاڑ کسی مافوق الفطرت مخلوق یا جنات کا مسکن ہیں اور کوئی بھی شخص اس پہاڑ کی طرف نہیں جاتا تھا۔ کشتیوں والے بھی آدھی جھیل تک ہی سفر کرتے تھے کیونکہ یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی شخص آگے جائے گا تو اس کا زندہ واپس آنا ممکن نہیں۔

سکردو کے ایک رہائشی شبیر خان نے بتایا کہ چند سال پہلے ایک ٹورسٹ فیملی نے اندھی جھیل کے کنارے کھڑے ہو کر دوسری طرف والے پہاڑ کی تصویر لی تھی، جس میں کسی پر اسرار مخلوق کی جھلک آ گئی تھی۔

تاہم، قاسم نسیم نے کہا کہ اس جھیل میں حکومت نے فش فارم بنا رکھا ہے۔ موٹر والی کشتیاں پوری جھیل میں دوڑتی پھرتی ہیں۔

Read Comments