کھانے کو پکا کر کھانا بہت ضروری ہے، درحقیقت، کچھ محققین کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے ہمارے انسانی آباؤ اجداد کے دماغوں کو بڑھانے کے لیے درکار اضافی کیلوریز کا زریعہ ملا، لیکن سوال یہ ہے کہ انسانوں کو کب خیال آیا کہ کھانا پکا کر بھی کھایا جاسکتا ہے؟
محققین کے مطابق اس کا حقیقی وقت یا سال بیان کرنا تو غیریقینی ہے، لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ لوگ کم از کم 50 ہزار سال اور زیادہ سے زیادہ دو ملین سال پہلے سے کھانا پکاتے آرہے ہیں۔ یہ ثبوت دو شعبوں آثار قدیمہ اور حیاتیات سے حاصل ہوئے ہیں۔
کھانا پکانے کے حوالے سے آثار قدیمہ کے شواہد میں سے ایک پکے ہوئے نشاستے کے دانے ہیں جو دانتوں کے کیلکولس یا دانتوں پر جمی سخت پلیک میں پرت میں پائے گئے تھے۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں حیاتیاتی بشریات کے ریٹائرڈ پروفیسر اور کتاب “ کیچنگ فائر: ہاؤ کوکنگ میڈ یو ہیومن“ کے مصنف رچرڈ ورنگھم نے کہتے ہیں کہ ’لوگ اسے 50 ہزار سال پرانے دانتوں میں تلاش کر سکتے ہیں‘۔
لیکن اس سے پہلے کے شواہد کچھ کم واضح ہیں۔ عام طور پر، سائنسدان اس بات کا ثبوت تلاش کرتے آئے ہیں کہ انسانوں نے آگ پر قابو کب پایا، لیکن آگ پر قابو پانے کا ثبوت ضروری نہیں کہ کھانا پکانے کا ثبوت ہو۔ لوگ اس آگ کو گرمی کے لیے یا اوزار بنانے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے جیو کیمسٹ بیتھن لِنسکاٹ کہتے ہیں، ’آثار قدیمہ کے ریکارڈ میں آگ کے تمام ثبوت موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ انسانوں کی لگائیآگ تھی یا وہ آگ جو جنگل میں لگ جاتی ہے، یہ ہومینین (انسان نما بندر) بھی ہوسکتے ہیں جو ایک سلگتی ہوئی ٹہنی کو اٹھا کر اس سے اوزاروں بناتے یا کھانا پکا سکتے ہیں‘۔
لنسکاٹ کہتے ہیں کہ ’جب آپ آگ پر قابو پانے کے ثبوت تلاش کر رہے ہیں تو ایک اہم چیز دہن کا ایک حقیقی ڈھانچہ ہے، ہوسکتا ہے کہ پتھروں کو ایک دائرے میں ترتیب دیا گیا ہو اور پھر درمیان میں کچھ راکھ ہو، شاید کچھ فائیٹولتھس (سیلیکا ڈھانچے جو طویل مردہ پودوں کے ذریعہ چھوڑے گئے ہوں) اور جلائے گئے نمونے اور چیزیں‘۔
محققین کو یہ نمونے بہت سی جگہوں پر ملے ہیں جو ہومو سیپینز سے پہلے کے ہیں، یعنی پہلے ہومینین بھی آگ کا استعمال کرتے تھے۔ اسرائیل میں قسیم غار میں تحقیقات کرنے والی ایک ٹیم کو جانوروں کی باقیات کے قریب تین لاکھ سال پرانے چولہے کے شواہد ملے ہیں، اور انگلینڈ کے سفولک میں ایک غار کی جگہ پر چار لاکھ سال پرانا چولہا ملا ہے جس میں جلی ہوئی ہڈی اور اوزار بنانے سے پیدا ہونے والی چکمک موجود ہے۔
اس سے بھی پیچھے جائیں تو، جنوبی افریقہ میں ونڈر ورک غار میں موجود راکھ نے سائنسدانوں کو اس شبہ پر مجبور کیا کہ کھانا ایک ملین (دس لاکھ ) سال پہلے بھی پکایا جارہا تھا۔
ورنگھم کہتے ہیں کہ ’غار بہت گہرا ہے، تقریباً 30 میٹر (100 فٹ) گہرا، یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک ملین سال پہلے اس راکھ کو پیدا کرنے والا کوئی قدرتی عمل رونما ہوا ہو‘۔
یہاں تک کہ کینیا میں 1.6 ملین سال قبل آگ کو قابو کئے جانے کے شواہد موجود ہیں۔
اسرائیل میں گیشر بنوت یعقوف نامی سائٹ پر کام کرتے ہوئے، محققین کو 7 لاکھ 80 ہزار سال پہلے کے کھانا پکانے کے زیادہ قابل اعتماد شواہد ملے، جہاں چولہے کی نشاندہی کے لیے نہ صرف پتھروں کے دائرے موجود تھے بلکہ پکی ہوئی مچھلی کی ہڈیاں بھی ثبوت پیش کر رہی تھیں۔
کھانا پکانا کب شروع ہوا اس کے حیاتیاتی ثبوت انسانی جسم کے ارتقا کے طریقے میں موجود ہیں۔
ورنگھم کہتے ہیں، ’ہم ایک انواع کے طور پر زمین پر موجود ہر دوسری نسل سے مختلف ہیں کیونکہ ہم حیاتیاتی طور پر پکا ہوا کھانا کھانے کے لیے موافق ہیں۔‘
’مثال کے طور پر، خام کھانے والی یعنی کچی غذا پر مطالعے میں محققین نے پایا کہ شرکا کا وزن کم ہونے کا رجحان زیادہ تھا اور ایک تہائی خواتین میں ماہواری رک گئی تھی۔‘
ورنگھم کے مطابق، انسانوں کا کھانا پکانا جدید انسانوں کے ابھرنے سے پہلے بھی ہوسکتا ہے۔
ہومو ایریکٹس پہلا ہومینین تھا جس کے جسم میں پرائمیٹ جیسا اور زیادہ انسانی جسم کا تناسب تھا، اور ان میں سے کچھ خصوصیات بتاتی ہیں کہ وہ کھانا پکانے والے پہلے لوگ تھے۔
انسانوں اور ہمارے پرائمیٹ کزن کے درمیان ایک بڑا فرق ہماری آنتوں کا سائز ہے۔ چونکہ پکا ہوا کھانا ہضم کرنے کیلئے ہمیں کم محنت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہماری آنتیں ان سے چھوٹی ہیں۔
ورنگھم نے کہا کہ ہماری بڑی آنت، آنت کا آخری حصہ چمپینزی، گوریلا یا بونوبو کے سائز کا تقریباً دو تہائی ہے۔ ’اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پیٹ ان کے جیسے پھولے ہوئے پیٹ کی نسبت چپٹے ہیں‘۔
ان بڑی آنتوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے، غیر انسانی پریمیٹ کی چوڑی کمر اور پھیلی ہوئی پسلیاں ہوتی ہیں۔
ورنگھم نے کہا کہ ہمارے انسانی آباؤ اجداد نے تقریباً دو ملین سال پہلے یہ خصوصیات کھو دی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری چیز جو اس وقت ہوئی وہ انسانی ارتقا کی تاریخ میں چبانے والے دانتوں کے سائز میں سب سے بڑی کمی تھی۔ ’اور اسی طرح ایک بار پھر، یہ خیال بہت زیادہ فٹ بیٹھتا ہے کہ خوراک میں اچانک کچھ بدل گیا تھا۔ خاص طور پر، خوراک چبانا آسان یا نرم ہوگیا تھا۔‘
اور یہ 1.8 ملین سال پہلے ہوا۔
ورنگھم کے مطابق ’اور اس لیے یہاں بڑی کہانی یہ ہے کہ کھانا پکانے کا آغاز تقریباً 1.9 ملین سال پہلے اس انواع کی ابتدا سے ہوا جو انسانی ارتقاء میں سب سے زیادہ ہماری طرح نظر آتی ہے، یعنی ہومو ایریکٹس‘۔
لیکن آگ کے کنٹرول شدہ استعمال کے اتنے پرانے ثبوت کے بغیر، یہ خیال کہ ہومو ایریکٹس پہلا باورچی تھا اب بھی بحث کو جنم دے سکتا ہے۔
لِنسکاٹ کہتے ہیں کہ، ’ابھی بھی بہت سے لوگ اس پر کام کر رہے ہیں، اور میں تصور کرتا ہوں کہ یہ ایک طویل عرصے تک جاری رہے گا، اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ کبھی اس بات کی نشاندہی کر سکیں گے کہ کب انسان نے پہلا کھانا پکا کر کھایا‘۔