سعودی عرب کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے الزام لگایا ہے کہ ولی عہد محمد سلمان نے یمن میں حوثی ملیشیا اور دیگر مخالف گروہوں کے خلاف جنگ کے لیے اپنے والد کی طرف سے جعلی شاہی فرمان جاری کیا تھا۔ اس فرمان پر اپنے والد کی طرف سے انہوں نے دستخط کیے تھے۔
یہ الزام ایک ایسے وقت لگایا گیا ہے جب محمد بن سلمان سعودی عرب کے حقیقی حکمران کے روپ میں سامنے آچکے ہیں۔ اُن کے والد 88 سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اب بہت حد تک صاحبِ فراش ہیں اور مملکتی امور کی نگرانی سے قاصر ہیں۔
سابق سرکاری عہدیدار نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یمن کی حوثی ملیشیا کے خلاف کئی سال جاری رہنے والی جنگ کے لیے شاہی فرمان پر شاہ سلمان کی جگہ علی عہد محمد بن سلمان نے اُن کے دستخط کیے تھے۔
سعد الجابری نے پیر کو برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں بتایا کہ شاہ کی طرف سے بیشتر معاملات محمد بن سلمان ہی نمٹاتے ہیں۔ سعودی حکومت نے اس حوالے سے کسی فوری ردِعمل کے اظہار سے گریز کیا ہے۔
سعد الجابری کو سعودی حکومت اپنا ایک سابق برطرف افسر قرار دیتی ہے۔ وہ سعودی انٹیلی جنس کمیونٹی کا حصہ تھا۔ اب وہ کینیڈا میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ سعد الجابری کے دو بیٹے سعودی عرب میں مقید ہیں۔ سعودی حکومت سے سعید الجابری کے دیرینہ اختلافات ہیں۔
سعد الجابری کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان نے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ اس وعدے کے ساتھ شروع کی تھی کہ یہ بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ یہ جنگ کم و بیش ایک عشرے تک جاری رہی اور اس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
سعد الجابری کا کہنا ہے کہ ہم یہ دیکھ کر حیران تھے کہ سعودی فورسز کو کسی ملک میں داخل ہونے کا حکم دینے والا شاہی فرمان جاری کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب اس نوعیت کی عسکری مہم جوئی سے مکمل گریز کرتا ہے۔
سعد الجابری نے نائن الیون کے بعد القاعدہ سے نمٹنے کے لیے سابق ولی عہد محمد بن نائف کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔