اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روک دیا جبکہ عدالت نے نیب کو بدھ کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں 190 ملین پاؤنڈز کیس بند کرنے کے قومی احتساب بیورو (نیب) کے پرانے فیصلے کی ریکارڈ فراہمی اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژن بینچ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
اس کے علاوہ سلمان اکرم راجہ، عارف علوی، شبلی فراز، علی محمد خان، اعظم خان اور دیگر بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس: عدالت کی وکلا صفائی کو گواہوں پر جرح کی آخری وارننگ
دوران سماعت وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کے خلاف ریفرنس کی سماعت جاری ہے ، 35 گواہ ہو چکے ہین، آخری گواہ تفتیشی افسر پر جرح جاری ہے ، 8 ملزم ہیں، 6 اشتہاری ہیں اور 2 میاں بیوی کے خلاف کیس جاری ہے ، اصل الزام ملک ریاض فیملی کی حد تک ہے کہ وہ اشتہاری ہیں ، الزام یہ ہے پیٹشنر جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے 190 ملین پاؤنڈ کے حوالے سے سہولت فراہم کی ، نیب کا کیس ہے پیسے اسٹیٹ بنک میں آنے تھے لیکن سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئے ، یہ سیٹلمنٹ ملک ریاض اور این سی اے کے درمیان تھی ، این سی اے نے پیسے دے دیے، آگے وہ جہاں مرضی استعمال کریں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا این سی اے نے رقم براہ راست پاکستان بھیجی؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ نہیں، این سی اے نے رقم ڈی فریز کردی، رقم ملک ریاض اور ان کی فیملی کو دے دی، پھر ملک ریاض نے خود رقم سپریم کورٹ رجسٹرارکےاکاؤنٹ میں بھیجی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کیا رقم واپس ملک ریاض اور ان کی فیملی کے اکاؤنٹس میں چلی گئی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ رقم براہ راست سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں بھیجی گئی۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ برطانیہ کی طرف سے رقم ملک ریاض اورفیملی کو واپس کردی گئی؟ رقم پاکستان کس کی جانب سے پاکستان بھیجی گئی؟۔
اس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ رقم واپس کردی گئی اور ملک ریاض فیملی کی طرف سے بھیجی گئی، ملک ریاض نے بانی پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ بنانے کے لیے زمین دی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ یہ یونیورسٹی کہاں ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ یونیورسٹی جہلم کے قریب ہے اور فنکشنل ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے پوچھا کہ یونیورسٹی فنکشنل ہے؟ جس پر سلمان صدر نے کہا کہ ریفرنس میں ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس فعال ہے یہ گھوسٹ پراجیکٹ نہیں ہے، 458 کنال زمین پہلے ملک ریاض کی ملکیت تھی اب یونیورسٹی ٹرسٹ کےنام ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ٹرسٹ رجسٹرڈ ہے؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ جی رجسٹرڈ ٹرسٹ ہے۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت کرنے والے جج نے عہدے کا چارج چھوڑ دیا
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے پاس کیس ہے یہ رجسٹرڈ تو نہیں، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں اس حوالے سے معلوم کرکے آئندہ سماعت پرعدالت کو بتاؤں گا، نیب کے کسی بھی ٹرائل کو سپریم کورٹ نے روکا ہوا ہے ، ہم نے تفتیشی افسر تک کیس کا ٹرائل چھٹیوں میں کر لیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ کا یہ مسئلہ ہے ٹرائل کوئی کررہا ہوتا ہے ہائیکورٹ کوئی آرہا ہوتا ہے سپریم کورٹ کوئی جا رہا ہوتا ہے، جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ہمارے اوپر بوجھ بہت ہے ابھی بھی ایک کیس کرکے آرہا ہوں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سرور سندھو کیس پڑھا ہے، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ججمنٹ ہمارے مؤقف کی تائید کرتی ہے۔
190 ملین پاؤنڈز کیس: نیب نے عمران خان کی ضمانت کا فیصلہ چیلنج کردیا
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روکتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بدھ تک جواب طلب کرلیا۔
ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے وکلا ٹرائل کورٹ میں تاخیری حربے استعمال نہ کریں، تاخیری حربے استعمال کیے تو عدالت اپنا حکمنامہ واپس لے لے گی۔
یاد رہے کہ 16 اگست کو سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 190 ملین روپے کرپشن کیس میں ٹرائل روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی.
عمران خان کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپریل 2020 میں اپنے 343ویں ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں 19 کروڑ پاؤنڈز کرپشن ریفرنس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی اور جرح کے دوران تفتیشی افسر نے اجلاس سے متعلق کچھ حقائق کو تسلیم بھی کیا۔
بیرسٹر سلمان صفدر اور ایڈووکیٹ خالد یوسف چوہدری کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے کیس کا ریکارڈ طلب کرنے کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی تھی تاہم جج نے اسے خارج کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ مقدمے میں تفتیشی افسر استغاثہ کے آخری گواہ ہیں، انہوں نے چند ہفتے قبل احتساب عدالت میں گواہی دی تھی تاہم وکیل دفاع مختلف وجوہات کی بنا پر جرح مکمل نہیں کر سکے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقدمے کا تفتیشی افسر احتساب عدالت میں استغاثہ کے 35 گواہ کے طور پر پیش ہوا اور جرح کے دوران اس نے واضح طور پر 343ویں ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے انعقاد اور مذکورہ ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے ذریعے اس کیس کو بند کرنے کا اعتراف کیا۔
اس میں بتایا گیا کہ مذکورہ میٹنگ کے منٹس نیب کے قبضے میں ہیں اور انہیں دفاع کی حمایت میں اہم ثبوت کے طور پر ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے، درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ نیب کو متعلقہ ریکارڈ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت جاری کی جائے اور ریکارڈ جمع ہونے تک ٹرائل کی کارروائی روک دی جائے۔