لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 کے خلاف دائر متفرق درخواست پر وفاقی حکومت سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے شہری منیر احمد کی درخواست پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے درخواست کی مخالفت کی جبکہ درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 کا اطلاق ماضی سے نہیں ہو سکتا، ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔
درخواست میں حتمی فیصلے تک پی ٹی آئی کے علاؤہ کسی دوسری جماعت کو مخصوص نشستیں دینے سے روکنے کی استدعا بھی کی گئی۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
دوران سماعت ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست بطور اعتراض موجود ہے، لہذا لاہور ہائیکورٹ میں درخواست قابل سماعت ہے۔
الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 کے خلاف دائر متفرق درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب 23 آگست تک طلب کرلیا۔
الیکشن ایکٹ 2017 میں یہ ترمیمی بل سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد لایا گیا ہے جس کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم جاری کیا گیا کہ تحریک انصاف کو اس کی مخصوص نشستیں دی جائیں۔
پہلی ترمیم کے مطابق کوئی رکن اسمبلی اپنا سیاسی جماعت سے وابستگی کا پارٹی سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں کرسکتا۔
دوسری ترمیم کے مطابق مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ کسی جماعت نے وقت پر فہرست جمع کروا رکھی ہو۔
پہلی ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 میں متعارف کروائی گئی ہے جبکہ دوسری ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 میں متعارف کروائی گئی ہے، ترمیمی ایکٹ 2024 کے مطابق یہ دونوں ترامیم منظوری کے بعد فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی۔
اس بل کی منظوری کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
الیکشن ترمیمی ایکٹ 2024 کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر
لاہور ہائیکورٹ کے جج کی الیکشن ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست پر سماعت سے معذرت
بیرسٹر گوہر علی خان نے سلمان اکرم راجہ کی وساطت سےآرٹیکل 184/3 کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی، جس میں وفاق اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا۔