Aaj Logo

شائع 18 اگست 2024 10:02pm

دوست کو بیوقوف بنانے کیلئے نئے جانور ایجاد کرنے والا ماہر بشریات، جس کا راز 100 سال تک نہ کھل سکا

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جان جیمز آڈوبن کو جانتا ہو، لیکن امریکہ کے ہر ایک اسکول میں آڈوبن مشہور ہے، اور ہو بھی کیوں نہ، اس کے نام پر ایک پوری تنظیم جو ہے۔ وہ ایک ماہر فطرت اور آرنیتھولوجسٹ تھا جس نے اپنی غیر معمولی مصوری کی مہارت کو امریکی پرندوں کے بارے میں سب سے اہم کتاب بنانے کے لیے استعمال کیا۔

آڈوبن اپنے زمانے میں فطرت اور جانوروں کے موضوعات پر بنیادی اتھارٹی تھا۔ اس لیے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ آڈوبن نے جو باتیں اس موضوع پر کہی تھیں انہیں بغیر کسی تصدیق کے حقائق کے طور پر قبول کر لیا گیا۔

لیکن اگر میں آپ کو بتاؤں کہ امریکی سلیبس کی مشہور کتاب ”The Birds of America“ کے پیچھے موجود دماغ مذاق کے طور جانوروں کی پوری انواع گھڑنے کا مجرم تھا تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ آڈوبن جیسا ذہین انسان اتنا بڑا جھوٹ پھیلانے میں کیوں دلچسپی لے سکتا ہے، آپ کو کونسٹینٹائن رفینسکی (Constantine Rafinesque) سے آغاز کرنا ہوگا۔

کونسٹینٹائن اپنے زمانے کا ذہین ترین انسان سمجھا جاتا تھا۔ اس نے نباتیات، بشریات سے لے کر لسانیات تک ہر چیز کا تھوڑا تھوڑا مطالعہ کر رکھا تھا۔ وہ قسطنطنیہ کے قریب پیدا ہوا اور امریکہ بھر میں گھوما۔

1818 میں، کونسٹینٹائن سیموئیل رفینسکی دریائے اوہائیو کی وادی کے نیچلے راستے میں پودوں اور جانوروں کے نمونے اکٹھے کر رہا تھا۔ اس مہم کے دوران، وہ اکثر ساتھی نباتیات اور ماہرین فطرت سے ملتا یا ان کے ساتھ رہنے کے لیے رک جاتا تھا۔ اسی طرح اس نے اسی سال اگست میں کینٹکی کے شہر ہینڈرسن میں مصور اور ماہر فطرت جان جیمز آڈوبن کے گھر تک رسائی حاصل کی۔

اس نے سوچا کہ آڈوبن کی پینٹنگز کے پس منظر میں نظر آنے والے کچھ پودے شاید نئی نسل کے تھے۔

تو ایک سیکھنے والے کیلئے امریکن فلورا اور فیونا پر اولین اتھارٹی کے ساتھ وقت گزارنے سے بہتر کیا ہوسکتا تھا۔

لیکن اسے نہیں پتا تھا کہ حیران کن واقعات اس کا انتظار کر رہے ہیں۔

تاریخ پتہ چلتا ہے کہ کونسٹینٹائن کوئی زیادہ پسند کی جانے والی شخصیت نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی باصلاحیت فطرت کی وجہ سے لوگوں نے اسے تھوڑا سا مغرور یا الگ جانا ہو۔ مصنف جان یرمیاہ سلیوان کے مطابق، آڈوبن ریکارڈ پر موجود واحد شخص ہے جو درحقیقت کونسٹینٹائن کو پسند کرتا تھا۔

اب یہ دوستانہ مذاق تھا، یا شاید کونسٹینٹائن میں کم عقلی کا عنصر کہ آڈوبن نے اسے جانوروں کی ایسی انواع کے بارے میں بتانا شروع کیا جو حقیقت میں کبھی موجود ہی نہیں تھیں۔

اور ظاہر ہے، کیونکہ وہ اس موضوع پر ایک اتھارٹی مانا جاتا تھا تو کونسٹینٹائن کو کبھی خیال بھی نہ آیا کہ وہ اس جعلی معلومات پر سوال اٹھائے جو اسے دی جا رہی تھیں۔

ان جعلی انواع کی معلوماتاتنی قابل فہم تھیں کہ فوری طور پر پکڑی نہ جائیں، اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایسی خصوصیت بھی بیان کی گئی تھی جس کا کوئی مطلب نہیں بنتا تھا۔

آڈوبن نے مچھلیوں کی 11 انجان انواع کا خاکہ بنایا، جس میں 10 فٹ لمبی ڈیول-جیک ڈائمنڈ مچھلی بھی شامل تھی جس کے بلٹ پروف اسکیلز بیان کئے گئے تھے۔

آرکائیوز آف نیچرل ہسٹری کے ایک مقالے کے مطابق ، آڈوبن نے دو پرندے، ایک ”ٹرائیوالو“ مولک نما مخلوق، تین گھونگے اور دو پودے بھی بنائے۔ اس نے نو ”جنگلی چوہے“ بھی بنائے۔

لیکن آڈوبن نے کونسٹینٹائن کے ساتھ ایسا کیا کیوں؟ دراصل آڈوبن ایک رات بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ کونسٹینٹائن برہنہ حالت میں کمرے میں اس کا پسندیدہ وائلن ہوا میں لہراتا ہوا دوڑ رہا ہے، وہ چمگادڑوں کو مارنے کی کوشش کر رہا تھا جو کھلی کھڑکی سے اندر داخل ہوئے تھے۔ کونسٹینٹائن کو لگ رہا تھا کہ یہ چمگادڑوں کی ایک نئی نسل ہے اور وہ اسے پکڑنا چاہتا تھا۔ اس دوران آڈوبن کا وائلن ٹوٹ چکا تھا، ناراض آڈوبن نے وائلن کی باقیات کو اس کے ہاتھ سے لیا اور کام ختم کر دیا۔

اور یوں آڈوبن نے شاید انتقاماً کونسٹینٹئان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن کہتے ہیں نا کہ مکافات عمل ضرور ہوتا ہے، تو ایسا ہوا بھی۔ آڈوبن کو اس کی اپنی شرارت کا مزہ بھی چکھنا پڑا، جب اس کے اپنے ایک اسسٹنٹ نے اسے بیوقوف بنایا۔

آڈوبن کا ایک دوست جان گراہم بیل 1840 کی دہائی میں اس کے اسسٹنٹ اور ٹیکسڈرمسٹ کے طور پر اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا، دونوں کسی وجہ سے ایک ہفتے کے لیے الگ ہو گئے۔ جب آڈوبن چلا گیا تو گراہم بیل نے مختلف پرندوں کے سر، جسم اور ٹانگیں ایک ساتھ سی کر ایک عجیب مخلوق تیار کی۔

آڈوبن مخلوق کو دیکھ کر حیران رہ گیا، ہفتوں بعد جب گرایم بیل نے اعتراف کیا تو آڈوبن شرمسار ہوگیا لیکن جلد ہی اس نے گراہم بیل کی اس چال میں مزاح دیکھا اور اسے معاف کردیا۔

لیکن آڈوبن نے کونسٹینٹائن کے ساتھ جو مزاق کیا، اس کا اعتراف کبھی نہیں کیا، حتیٰ کہ کونسٹینٹائن نے کئی جعلی جانوروں کی کھوج کیلئے آڈوبن کو کریڈٹ بھی دیا، لیکن یہ عقدہ کھلنے میں سو سال لگ گئے۔

Read Comments