کولکتہ کے آر جے کار میڈیکل کالج کی جونیر ڈاکٹر کو ماہِ روں کے اوائل میں زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ اس کے والد نے بیٹی کی آخری دن کی ڈائری کے بارے میں بتایا ہے۔
جونیر ڈاکٹر کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بہت محنتی تھی اور روزانہ دس سے بارہ گھنٹے پڑھا کرتی تھی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اعلیٰ درجے کی ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرے۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں مقتول جونیر ڈاکٹر کے والد نے بتایا کہ وہ ڈائری لکھنے کی عادی اور شوقین تھی۔ جس دن اُسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اُس دن بھی اُس نے ڈائری لکھی تھی۔ زندگی کی اِس انٹری میں اُس نے اُن خوابوں کا ذکر کیا تھا جنہیں وہ شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ اس نے آخری ڈائری انٹری میں لکھا تھا کہ وہ میڈیکل میں گولڈ میڈل حاصل کرنا چاہتی تھی۔ وہ طب کے شعبے کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی تھی۔ یہ سب کچھ اس نے آر جے کار میڈیکل کالج میں اپنی نائٹ شفٹ کے لیے روانہ ہونے سے کچھ ہی دیر قبل لکھا تھا۔
مقتول ڈاکٹر کے والد نے بتایا کہ بیٹی کے ڈاکٹر بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے خاندان نے بہت قربانیاں دیں۔ اس کے قتل سے پورا گھرانہ نفسی اعتبار سے شکست و ریخت کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔
مقتول جونیر ڈاکٹر کے والد کا کہنا تھا کہ پہلے پہل بتایا گیا کہ اُن کی بیٹی نے خود کشی کی ہے مگر پھر پتا چلا کہ اُس کے ساتھ تو زیادتی کی گئی تھی۔ یہ واقعہ رات تین اور صبح پانچ بجے کے درمیان کا ہے۔ جونیر ڈاکٹر اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد سیمنار ہال سے باہر آرہی تھی کہ اغوا کرلی گئی۔ والد کہنا ہے کہ ان کی بیٹی تو اب کبھی واپس نہیں آسکتی تاہم مجرم کو قرار واقعی سزا ملنے سے دل کو سکون ضرور ملے گا۔