برطانوی حکومت نے ملک میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر قوانین پر نظرِثانی کرتے ہوئے اس طرح کے تشدد اور حملوں کو دہشت گردی قرار دینے پر غور شروع کردیا ہے۔
برطانوی وزیرِداخلہ یویٹ کوپر نے حکم دیا ہے کہ متعلقہ قوانین کا جائزہ لے کر ایسی تمام کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کی جائے جن کے باعث خواتین پر حملے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور دیدہ دلیری سے خواتین کو نشانہ بناتے پھرتے ہیں۔
ایک انٹرویو مین یویٹ کوپر نے کہا کہ خواتین کو نشانہ بنانے اور اُن پر تشدد کرنے کو انتہائی دائیں بازو کا رویہ قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے مماثل ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے اس حوالے سے واضح ہدایات جاری کی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے معاشرے میں انتشار بڑھ رہا ہے اور بچوں پر بھی اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
نئے قوانین کی تیاری کے ساتھ ساتھ اسکول ٹیچرز اور پولیس اہلکاروں کو بھی متعلقہ ذمہ داریاں سونپے جانے کا امکان ہے۔ ٹیچرز سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے طلبات و طالبات میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے منفی رجحانات کی نشاندہی کریں.
پولیس اہلکار شکایات ملنے پر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ متعلقہ شخص یا اشخاص میں خواتین کے حوالے سے منفی سوچ خطرناک حد تک تو نہیں پائی جاتی ۔
جن افراد کے خیالات خطرناک محسوس ہوں گے پولیس اہلکار اُن کے خیالات سے ”انقلابیت“ دور کرنے کی کوشش کریں گے یا اس حوالے سے متعلقہ ماہرین کو سفارشات پیش کریں گے۔