جشنِ آزادی کے موقع پر ایک غیر مقیم پاکستانی کا نام سرکاری اعزاز پانے والوں کی فہرست میں پاکر بہت سوں کو حیرت ہوئی ہے۔ ایوانِ صدر نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ان پاکستانیوں کی فہرست جاری کی ہے جنہیں 23 مارچ کو سرکاری اعزازات دیے جائیں گے۔ ان میں عمر فاروق کا نام بھی شامل ہے جنہیں ہلالِ امتیاز دیا جائے گا۔
کابینہ ڈویژن کے ایک افسر نے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ عمر فاروق کا نام سعودی ولی عہد کی طرف سے تحفے میں ملنے والی دستی گھڑی کے خریدار کی حیثیت سے سامنے آیا تھا۔ ان کے لیے سماجی شعبے میں خدمات انجام دینے پر ہلالِ امتیاز کی سفارش کی گئی ہے۔
عمر فاروق کا دعوٰی تھا کہ انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے عمران خان کو دیا جانے والا خصوصی تحفہ (جس میں گھڑی بھی شامل تھی) وزیرِاعظم کے سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر کی معرفت سابق وزیرِاعظم کی اہلیہ کی دوست فرح خان سے دبئی میں خریدا تھا اور اس کے لیے 20 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے تھے۔
عمر فاروق کے دعوے کے جواب میں پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ یہ گھڑی پاکستان میں ایک ڈیلر کو 5 کروڑ 70 لاکھ روپے میں بیچی گئی تھی۔
عمر فاروق کی سماجی خدمات کے بارے میں تو معلوم نہیں ہوسکا تاہم اتنا ضرور ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے دور میں ان کا نام انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں نمودار ہوا تھا۔ بیوی کو سنگین نتائج کی دھمکی دینے اور بچوں کو چھیننے کے الزام میں عمر فاروق کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج کرکے اُنہیں اشتہاری بھی ٹھہرایا گیا تھا۔ بیرونِ ملک فرار ہونے پر عمر فاروق کا نام انٹرپول کی فہرست میں بھی شامل ہوا تھا۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے ختم ہونے پر عمر فاروق نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کی استدعا کی تھی جس نے انہیں بے قصور قرار دیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ شہزاد اکبر نے ایف آئی اے سے کہا تھا کہ عمر فاروق کی سابق اہلیہ صوفیہ جمال کی مدد کرے اور یوں قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عمر فاروق کے وارنٹ جاری کرکے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلیک لسٹ کیا گیا تھا۔
بعد میں انٹرپول نے ان کا نام اپنی فہرست سے خارج کیا اور لاہور کی عدالت نے بیٹیوں کو اغوا کرنے اور جعلی شناختی کارڈ بنوانے کے الزام سے بری کیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے ختم ہونے پر معاملات یوں پلٹے کہ شہزاد اکبر کے خلاف بھی جعلی کارروائی کا مقدمہ بنوایا گیا جو بعد میں خارج کردیا گیا۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کہتے انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے سرکاری اعزازات پانے والوں کی فہرست میں عمر فاروق کا نام شامل کیا تھا۔
متعلقہ کمیٹی کے ایک اور رکن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس یا وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ہی اس فہرست میں تبدیلی نہیں کی جاتی بلکہ ایوان صدر میں بھی جب اس فہرست کو حتمی نوٹیفیکیشن کے لیے بھجوایا جاتا ہے تو رد و بدل ہوتا ہے۔ جب احسن اقبال سے عمر فاروق کی سماجی خدمات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔