یو اے ای میں کام کرنے والے جو پروفیشنلز طویل المیعاد قیام کے لیے گولڈن ویزا حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے کم از کم ماہانہ تنخواہ 30 ہزار درہم کی شرط عائد کردی گئی ہے۔
امیگریشن کے ماہرین نے بتایا ہے کہ 10 سالہ قیام کے گولڈن ویزا کے لیے کم از کم تنخواہ کی شرط میں اداروں کی طرف سے دیے جانے والے الاؤنسز شامل نہیں ہیں۔
روزنامہ خلیج ٹائمز کے مطابق عام طور پر اس حوالے سے حکومت کی طرف سے جو پیکیج شامل کیے جاتے ہیں ان میں بنیادی تنخواہ کے علاوہ مکان کے کرایا، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر الاؤنسز شامل ہوتے ہیں۔
امیگریشن سروسز سے متعلق فرم فریگومین کے سینیر مینیجر برائے دبئی نوفیساتو موجیدی کا کہنا ہے کہ گولڈ ویزا کے لیے کم از کم تنخواہ کی شرط تبدیل کردی گئی ہے۔
اب تک مجموعی تنخواہ کی بنیاد پر ویزا جاری کیا جاتا تھا جس میں مختلف الاؤنسز بھی شامل ہوتے تھے۔ اب شرط عائد کی گئی ہے کہ ماہانہ کم از کم 30 ہزار درہم خالص تنخواہ ہونی چاہیے۔
دبئی کی فرم عربین بزنس سینٹر کے آپریشن مینیجر اور امیگریشن ایکسپرٹ فیروز خان نے بھی گولڈن ویزا کے لیے بنیادی تنخواہ کی نئی شرط کی تصدیق کردی ہے۔
یو اے ای نے 2022 میں گولڈ ویزا جاری کرنے کی اسکیم شروع کی تھی تاکہ دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے قابل ترین افراد یو اے ای آئیں اور اس کی معاشی حیثیت کو بلند کریں۔
گولڈن ویزا کی پالیسی میں تبدیلی سے یو اے ای کو اعلیٰ ترین پروفیشنلز تو حاصل ہوں گے تاہم وہاں کام کرنے والے ہزاروں افراد طویل المیعاد قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔
امارات میں طویل مدت سے کام کرنے والے ایسے ماہرین بھی ہیں جو اگرچہ بہت زیادہ تنخواہ نہیں پاتے تاہم اُن کے قیام سے امارات کی معیشت کو توانائی ملتی ہے۔ ایسے لوگ اب مختصر مدت کے ویزے پر کام کرتے رہنے پر مجبور ہوں گے۔