بھارتی ریاست ہریانہ میں ایک نوجوان گیارہ سال سے بستر پر ہے۔ ہریش انجینیرنگ کا طالب علم تھا۔ 5 اگست 2013 کو وہ ایک عمارت سے گرگیا جس کے نتیجے میں اس کے حواس چلے گئے۔ تب سے اب تک وہ بستر پر ہے۔
ہریش کے والد اشوک اور والدہ نرملا کی خواہش ہے کہ یوتھینیزیا کے ذریعے اُن کے بیٹے کی زندگی ختم کردی جائے اور وہ اُس کے اعضا عطیہ کردیں۔ نرملا رانا کہتی ہیں ہم تھک چکے ہیں۔ گیارہ سال سے جوان بیٹے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ اب زندگی کا کچھ بھروسا نہیں۔
نرملا رانا کہتی ہیں میں اکثر یہ سوچ کر پریشان ہو جاتی ہوں کہ ہم نہ رہے تو ہمارے بیٹے کا کیا ہوگا، کون اس کا دھیان رکھے گا، اِس کی زندگی کو تسلسل دے پائے گا۔
بھارت میں یوتھینیزیا کے ذریعے کسی کو موت کے منہ میں ڈالنے کے حوالے سے قوانین اور اخلاقی معیارات بہت سخت ہیں۔ اس نوعیت کی اپیلیں مسترد کی جاتی رہی ہیں۔
2011 میں سپریم کورٹ نے ایک ایسی نرس کے لیے یوتھینیزیا کی اپیل مسترد کردی تھی جو کئی عشروں سے بستر پر تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے 2018 میں رولنگ دی کہ اگر کوئی شخص اس حالت میں ہو کہ بستر سے ہل بھی نہ سکتا ہو تو اس کے لیے یوتھینیزیا استعمال کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
ہائی کورٹ نے ہریش کے کیس میں یوتھینیزیا کے استعمال کی اجازت اس لیے نہیں کہ وہ کسی بھی بیرونی سپورٹ کے بغیر زندہ ہے۔ اب سپریم کورٹ رولنگ کی مدد سے ہریش کے والدین پُرامید ہیں کہ اُنہیں بیٹے کے لیے یوتھینیزیا کے استعمال کی اجازت مل جائے گی۔
ہریش کی والدہ کہتی ہیں ہم ہریش کے اعضا عطیہ کردیں گے تاکہ اپنے بیٹے کو دوسروں کے وجود میں سانس لیتا ہوا محسوس کرسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلسل بستر پر پڑے رہنے سے ہریش ہڈیوں کا ڈھانچا ہوکر رہ گیا ہے۔ پیشاب کا بیگ بستر سے لگا ہوا ہے۔ کمر میں بڑے زخم ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ بہت اذیت محسوس ہوتی ہے۔