افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا ہے کہ القاعدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کی لاش کے افغانستان میں موجود ہونے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیقات البتہ جاری ہیں۔
العربیہ ویب سائٹ کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان میں کوئی انتہا پسند گروپ نہیں۔ داعش کا ظہور بھی امریکی دور میں ہوا تھا۔ طالبان حکومت کہنا ہے کہ افغانستان کی حدود میں داعش کی موجودگی کی خبریں درست نہیں۔
العربیہ سے انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ تحریکِ طالبان میں کوئی اختلاف ہے نہ تقسیم۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان نے دوحہ معاہدے کے مندرجات پر عمل کیا مگر امریکا نے ایسا نہیں کیا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے 2 اگست 2022 کو اعلان کیا تھا کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو امریکی فوج نے کابل میں مار ڈالا ہے۔
یہ بھی کہا گیا تھا کہ انہیں ڈرون کے ذریعے چلائے جانے والے میزائل سے ہلاک کیا گیا۔ تب وہ ایک مکان کی بالکونی میں کھڑے تھے۔
ایمن الظواہری کا شمار القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے قریب ترین ساتھیوں میں ہوتا تھا اور وہ اُن کے معالج بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایمن الظواہری نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ تھے۔