بنگلا دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کے رفقائے کار کے خلاف قتلِ عام کے مقدمات کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
شیخ حسینہ اور اُن کے ساتھیوں پر 15 جولائی سے 5 اگست تک طلبہ تحریک کے دوران بڑے پیمانے پر قتلِ عام کے احکامات دینے اور سیکڑوں ہلاکتوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
بنگلا دیش کی سابق وزیرِاعظم اور ان کے ساتھیوں پر طلبہ تحریک کے دوران قتل کے احکامات جاری کرنے، متعدد کارکنوں کو غائب کرانے اور اُن کے قتل کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
طلبہ تحریک کے دوران اور اُس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد خبریں آتی رہی ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ مجموعی طور پر 560 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
ہزاروں کو گرفتار کیا گیا تھا جنہیں شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ بہت سے طلبہ اب بھی لاپتا ہیں۔ اس حوالے سے بھی سابق حکومت کے بارے میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔
شیخ حسینہ کے خلاف قتلِ عام کے مقدمات کی سماعت کا آج یعنی 15 اگست کو شروع کیا جانا علامتی نوعیت کا بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ شیخ حسینہ کے والد، والدہ اور بھائی سمیت خاندان کے 18 افراد کو 15 اگست 1975 کی شب جونیر فوجیوں کے ایک دستے نے ہلاک کردیا تھا۔
ہر سال 15 اگست کو بنگلا دیش میں چھٹی ہوا کرتی تھی مگر عبوری حکومت نے اس چھٹی کومنسوخ کردیا ہے۔ ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی برسی پر اظہارِ غم کے لیے جمع ہونے والے عوامی لیگ کے کارکنوں کو مشتعل افراد نے یرغمال بناکر اُن پر تشدد کیا۔
شیخ حسینہ واجد کے خلاف سماعت انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے شروع کی ہے۔ یہ وہی ٹربیونل ہے جس کے تحت شیخ حسینہ واجد نے اپنے جابرانہ دورِ حکومت میں بنگلا دیش بنانے کی تحریک کی مخالفت کی پاداش میں جماعتِ اسلامی کے معمر رہنماؤں کو پھانسیاں دی تھیں۔
جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو 1971 میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں دی جانے والی پھانسیوں کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی تھی اور بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی ساکھ اور حیثیت پر بھی سوال اٹھایا گیا تھا۔