لاڑکانہ (فرضی مقام) میں ایک نوجوان شاہد اپنی ممانی ثمینہ (فرضی نام) کے قتل کے جرم میں تھانے میں لایا گیا۔ صحافی جب اس قتل کی خبر کو کور کرنے کیلئے قاتل بھانجے کے پاس پہنچے تو انہوں نے صحافیوں کو دیکھ کر کہا کہ، میری ممانی کے قاتل آپ ہیں، آپ نے ہی اسے قتل کیا ہے۔ مجھے یہ کام کرنے پر آپ نے مجبور کیا۔ شاہد کی پولیس تھانے میں چیخ و پکار نے صحافیوں کو پریشان کردیا۔
اصل حقیقت ہے تھی کہ ثمینہ کے قتل کے ایک ہفتہ قبل شدید گرمیوں کے دن تھے، لاڑکانہ شہر کی رہائشی چالیس سالہ ثمینہ کے گھر کا ریفریجیٹر خراب ہوگیا۔ ان کا شوہر کراچی میں نوکری کرتا تھا۔ لہذا وہ خود ہی ریفریجریٹر کی مرمت کرنے ٹیکنیشن کے دکان پر لے آئی۔ ٹیکنیشن نے انہیں دو دن بعد آنے کا کہا۔
دو دن کے بعد وہ جب ٹیکنیشن کے دکان پر ریفریجریٹر لینے پہنچی تو ٹیکنیشن نے انہیں کہا کہ ریفریجریٹر تیار ہے، ایک وائر لگانی ہے۔ تب تک دکان کے ساتھ کمرے میں بیٹھ جائیں، گرمی بہت ہے۔ وہ جب وہاں بیٹھی تو تھوڑی دیر کے بعد ٹیکنیشن اپنے دو دوستوں کے ساتھ آیا اور تینوں نے ثمینہ کے ساتھ ریپ کردیا۔
اب ثمینہ کے پاس دو راستے تھے۔ ایک کہ وہ سب کچھ برداشت کرکے خاموشی کے ساتھ ریفریجریٹر لیکر گھر چلی جائے، ان کے ساتھ جو ظلم ہوا، وہ کسی کو نہ بتائے۔ دوسرا راستہ تھا کہ اپنے ساتھ ہونے والی اس وحشت کو خاموشی سے سہہ جانے کے بجائے پولیس تھانے میں جاکر رپورٹ درج کرائے اور ملزمان کو کیفر کردار پر پہنچانے کیلئے میدان میں اترے۔ دوسرا راستہ مشکل تھا لیکن ثمینہ نے وہی راستہ منتخب کیا کہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر وہ خاموش نہیں بیٹھے گی۔ وہ متعلقہ پولیس اسٹیشن پہنچی اور ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔
دوسرے دن اس واقعے کی خبرتمام اخبارات میں لگی وہ بہت کربناک تھی۔ مقامی صحافیوں نے خاتون کی تصویر کے ساتھ اس کے اصل نام سے پوری خبر چھاپی، جس میں خاتون کا محلہ، گھر کا مکمل پتہ اور یہاں تک لکھ دیا کہ ان کے شوہر کا نام کیا ہے اور وہ کراچی میں کس کمپنی میں نوکری کرتا ہے۔ تمام اخبارات میں ایک ہی سی خبر لگی۔
اس طرح کی خبر لگنے سے خاتون اور ان کے خاندان کیلئے مسائل کھڑے ہوگئے۔ محلے کے لوگ ان کے گھر پر آکر پوچھنے لگے کیا کیسے واقع ہوا۔ عجیب باتیں شروع ہوگئیں۔ جس سے خاتون اور ان کے خاندان کا محلے میں رہنما مشکل ہوگیا۔
ثمینہ اس بات پر ثابت قدم رہی کہ ان کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیئے۔ لیکن خبر لگنے کے تیسرے روز ثمینہ کواس کے بھانجے شاہد نے پسٹل کے فائر کرکے قتل کردیا کہ وہ ہمارے خاندان کی بدنامی کا باعث بن گئی ہے۔ لوگ انہیں طعنہ دیتے ہیں۔ شہر میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔
جب صحافی شاہد کی گرفتاری کے بعد پولیس تھانے میں ان کے ساتھ ملنے گئے تو شاہد نے صحافیوں کو اپنی ممانی کے قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا۔
مقامی رپورٹرز نے یہ خیال کیے بغیر کہ خواتین کے ساتھ ریپ کی خبر کس احتیاط کے ساتھ دینی چاہیئے، خواتین کی تصویر، اصل نام، پتہ سب کچھ چھاپ کر اسے نمایاں کردیا۔ چلیں رپورٹرز نے ایسی خبر تو بھیجی لیکن ڈیسک پر بھی احتیاط نہیں برتی گئی اور اس خبر کے اثرات سے لاعلم رہتے ہوئے جوں کی توں چھاپ دی اور ایک متاثرہ خاتون کی جان چلی گئی۔
لاڑکانہ کے مقامی صحافی جاوید شاہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ ”یہ بہت تکلیف دہ واقعہ ہوا تھا۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے ایسے حساس واقعات کی رپورٹنگ کے حوالے سے مقامی صحافیوں کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تباہ کن اثرات سامنے آتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس خاندان کو کوئی پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ وہ محلہ خالی کرکے کہاں چلے گئے ہیں یہ کسی کو پتہ نہیں۔ غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے ایک مظلوم خاتون کی زندگی چلی گئی۔“
متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نبی بخش کا کہنا تھا کہ “ یہ واقعہ آٹھ نو سال پہلے ہوا تھا۔ اس کا ریکارڈ تلاش کرنے میں وقت لگے گا۔ متعلق خاندان اب کہاں ہے، کسی کو پتہ نہیں۔“
پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن اور سینئر صحافی ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا تھا کہ ”خصوصا، خواتین اور بچوں کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے اور خبر چھاپتے وقت رپورٹرز اور ڈیسک کو خبرداری اور سخت احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔ متاثرہ خاتون اور بچے کی تصویر تو ہرگز شایع نہیں کرنی چاہیئے لیکن اگر بہت ضروری ہو تو چہرے کو بلر کرکے چھاپا جائے تاکہ ان کی پہنچان ممکن نہ ہو۔ اصل نام، گھر کا پتہ وغیر نہیں لکھنا چاہیئے۔ اس میں سب سے اہم ذمہ داری رپورٹرز کے ساتھ ڈیسک پر بیٹھے ذمہ داران کی بھی ہے۔“
اگر ثمینہ خاموش ہوکر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم سہہ جاتی تو شاید زندہ ہوتی لیکن اگر وہ بہادری کے ساتھ باہر نکلی تاکہ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا سکے تو وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیئے تھا۔