سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر (اب ایکس) کے سابق سربراہ بروس ڈیزلے نے کہا ہے کہ اگر ایکس کے سربراہ نے برطانیہ میں سفید فام انتہا پسندوں کو اُکسایا ہے تو پھر اُنہیں برطانیہ پہنچنے پر گرفتاری کا سامنا کرنا چاہیے۔
بروس ڈیزلے نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ آن لائن سیفٹی کے قوانین بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایلون مسک جیسے لوگ اُن بڑوں میں سے ہیں جو کسی بھی معاملے میں جوابدہی کی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں۔
برطانوی اخبار گارجین کے لیے ایک مضمون میں ٹوئٹر کے نائب صدر برائے یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور افریقا نے کہا کہ یہ بات کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں کہ ایکس کے سربراہ اور چند دیگر ٹیک ایگزیکٹیوز کو نفرت اور بدگمانی کے بیج بونے دیا جائے اور اُن کے لی کوئی خطرہ ہی پیدا نہ ہو۔
بروس ڈیزلے نے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر پر زور دیا کہ وہ آن لائن سیفٹی کے حوالے سے قوانین کو بہتر اور توانا بنائیں اور یہ بھی دیکھیں کہ میڈیا ریگیولیٹر آف کام ایلون مسک کی سی سرگرمیوں سے بہتر طور پر نپٹنے کا اہل ہے یا نہیں۔
بروس ڈیزلے لکھتے ہیں کہ کارپوریٹ جرمانے بھی کارگر ثابت ہوتے ہیں تاہم اُن سے زیادہ کارگر طریقہ یہ ہے کہ کسی کو اپنی گرفتاری اور جیل میں وقت گزارنے کا خوف لاحق ہو۔ پابندیاں ذاتی نوعیت کی ہوں تو زیادہ ڈراتی ہیں۔
برطانیہ میں سفید فام انتہا پسندی کی لہر آئی ہوئی ہے۔ یورپ کے دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح اب برطانیہ میں بھی تارکینِ وطن کے خلاف عمومی سطح پر اور مسلمانوں کے خلاف خصوصی طور پر تنافر پایا جارہا ہے۔ سفید فام انتہا پسند اور نسل پرست عناصر ملک کے طول و عرض میں تارکینِ وطن اور مساجد کو نشانہ بنارہے ہیں۔ برطانوی حکومت نے اپیل کی ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ کرتے وقت انتہائی احتیاط برتیں اور ایسا مواد کسی صورت اپ لوڈ نہ کریں جس سے معاشرے میں مذہبی، نسلی اور ثقافتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔