پاکستان کی پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم سکینڈل کے سلسلے میں فوج نے حراست میں لے لیا ہے اور ان کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چکوال سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا شمار پاک فوج کے انتہائی تجربہ کار افسران میں کیا جاتا رہا ہے۔ وہ پاس آؤٹ ہونے کے بعد بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے، اور اپریل 2019 میں ان کی ترقی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ہوئی۔
انہیں 16 جون 2019 کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت تھی۔
انہوں نے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی جگہ آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ جنرل منیر کو کمانڈر گوجرانوالہ کور کا چارج دیا گیا۔
مزید برآں، موجودہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ایڈجوٹینٹ جنرل مقرر کر دیا گیا۔
اس تعیناتی سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف اسٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلیجنس سیکشن کے طور بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
اکتوبر 2021 میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بطور کور کمانڈر پشاور تعیناتی ہوئی۔ چند ماہ بعد انہیں کور کمانڈر بہاولپور تعینات کردیا گیا۔
2022 میں آئی ایس پی آر کی جانب سے کی جانے والی ایک ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) نے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے سمری وزارت دفاع کو بھیجی تھی، جس میں ان کا نام بھی شامل تھا۔
جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے تو مسلم لیگ (ن) نے بارہا ان پر الزام لگایا کہ وہ ان کی قیادت کے خلاف سزاؤں کو یقینی بنانے کے لیے عدالتوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
وہ اس وقت تنازعات کے مرکز میں تھے جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان چاہتے تھے کہ وہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رہیں لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس کچھ اور منصوبے تھے۔
دسمبر 2022 میں، فیض حمید نے دی نیوز کے انصار عباسی کو بتایا کہ وہ کبھی بھی سیاست میں شامل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے اپنی سیاست میں شمولیت یا پی ٹی آئی کی قیادت سے متعلق تمام قیاس آرائیوں کو ”مکمل طور پر غلط“ قرار دیا تھا۔
مزید برآں، اگست میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل حمید نے کابل کا دورہ کیا اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے دورے کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں لیکن ایک مختصر ویڈیو کلپ سامنے آئی جس میں وہ سرینا کابل میں چائے پیتے ہوئے رپورٹر کو بتا رہے تھے کہ ”سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا“۔
بہت سے تجزیہ کار طالبان کے قبضے کو پاکستان کے لیے ایک بڑی جیت قرار دیتے ہیں کیونکہ اس نے صدر اشرف غنی کی سابقہ حکومت میں موجود بھارتی اثر و رسوخ کو مؤثر طریقے سے ختم کیا۔